ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان گرما گرمی پھر سے شدت اختیار کر گئی

’مسک نے تاریخ میں سب سے زیادہ سبسڈی حاصل کی، حکومتی مالی مدد نہ ہوتی تو انہیں اپنی دکان بند کرنا پڑتی‘ امریکی صدر کا وار ؛ ’میری کمپنیوں کو دی جانیوالی تمام حکومتی امداد ابھی بند کردی جائے‘ مسک کا جواب

Sajid Ali ساجد علی منگل 1 جولائی 2025 12:37

ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان گرما گرمی پھر سے شدت اختیار کر گئی
واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 01 جولائی 2025ء ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیسلا کمپنی کے بانی ایلون مسک کے درمیان گرما گرمی پھر سے شدت اختیار کرگئی۔ عالمی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایلون مسک پر شدید تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایلون مسک صدارت کے لیے میری تائید کرنے سے پہلے ہی جانتے تھے کہ میں ای وی مینڈیٹ کے سخت خلاف ہوں کیوں کہ یہ مضحکہ خیز ہے اور ہمیشہ میری مہم کا ایک بڑا حصہ تھا، الیکٹرک کاریں ٹھیک ہیں لیکن ہر ایک کو اپنی ملکیت پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسک نے تاریخ میں کسی بھی انسان کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبسڈی حاصل کی اور اگر یہ حکومتی مالی مدد نہ ہوتی تو انہیں اپنی دکان بند کرکے واپس جنوبی افریقہ جانا پڑتا، پھر نہ کوئی راکٹ لانچ ہوتے، نہ سیٹلائٹ بنتے، نہ الیکٹرک گاڑیاں تیار ہوتیں اور ہمارا ملک بہت ساری دولت بچا لیتا، شاید ہمیں اس پورے سبسڈی اور سرکاری معاہدوں پر اچھی طرح نظر ڈالنے کو کہنا چاہیئے کیوں کہ اس سے بہت بڑی بچت ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ایلون مسک نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی حکومت کے اخراجات میں فضول خرچی اور دھوکہ دہی کو روکنے کا واحد طریقہ قرض کی حد کو استعمال کرنا ہے، قرض کی حد کا قانون اسی مقصد کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اگر ہم ہر بار اس حد میں اضافہ کرتے رہیں تو پھر اس قانون کی افادیت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ میری کمپنیوں کو دی جانے والی تمام حکومتی امداد ابھی بند کر دی جائے، میری صرف یہی درخواست ہے کہ امریکہ دیوالیہ نہ ہو۔

بتایا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان اس تنازعے کی جڑ وہ مجوزہ بل ہے جس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کے لیے صارفین کو دی جانے والی 7 ہزار 500 ڈالر کی ٹیکس کریڈٹ ختم ہوجائے گی، اس ممکنہ تبدیلی سے الیکٹرک گاڑیاں مہنگی ہو جائیں گی جس پر ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور امریکی صدر کے مجوزہ بل جسے ٹرمپ نے بگ بیوٹی فل بل قرار دیا، اس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بل منظور ہوا تو وہ ایک نیا سیاسی پلیٹ فارم شروع کریں گے۔