سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس

بدھ 2 جولائی 2025 21:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 جولائی2025ء) سیکرٹری پاور ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت نے بجلی کی سبسڈی میں کمی کے ذریعہ گردشی قرض میں اضافہ کو روکنے کی کوشش کی ہے، گردشی قرض کی ادائیگی کا معاملہ پہلے سے لاگو کردہ ڈیٹ سروسنگ سرچارج سے منسلک ہے، صارفین پر مزید کوئی اضافی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا،لائن لاسز میں کمی اور کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے وفاقی وزیر توانائی کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے آئی پی پیز سے متعلق تفصیلات اور ان پر اٹھنے والے اخراجات مانگے تھے جبکہ آئی پی پیز کا قیام بذات خود عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اکثر اوقات منصوبوں کی لاگت کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ منافع کی شرح زیادہ ظاہر کی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گردشی قرض پر قابو پانے کے لیے کوئی موثر نہیں کیے گئے۔ انہوں نے پاور ڈویژن پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ ہمیشہ اصل حقائق سے گریزاں رہتا ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ سوالات کے جوابات دینے کے بجائے پاور ڈویژن نے یہ موقف اختیار کیا کہ معاملہ ٹاسک فورس دیکھ رہی ہے، حالانکہ ٹاسک فورس بھی پاور ڈویژن کے ماتحت ہے اور اسی کے سامنے جوابدہ ہے۔

سیکرٹری پاور ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ گردشی قرض کی ادائیگی کا معاملہ پہلے سے لاگو کردہ ڈیٹ سروسنگ سرچارج سے منسلک ہے۔انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ صارفین پر مزید کوئی اضافی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجلی کی سبسڈی میں کمی کے ذریعے گردشی قرض میں اضافے کو روکنے کی کوشش کی ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے آئی پی پیز کو دی جانے والی غیر معمولی منافع کی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ منافع عوام کو واپس ملنا چاہیے۔

چیئرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ اضافی منافع کی رقم آئی پی پیز سے کیوں وصول نہیں کی گئی۔ انہوں نے پاور ڈویژن کی جانب سے کمیٹی کے سوالات کا براہ راست جواب نہ دینے اور ذمہ داری ٹاسک فورس پر ڈالنے کے عمل پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔انہوں نے مزید سوال اٹھایا کہ ملک میں بجلی کی وافر دستیابی کے باوجود لوڈشیڈنگ کیوں جاری ہے؟ سیکرٹری پاور ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ لائن لاسز میں کمی اور کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی چوری والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے اور ہم ٹرانسفارمر سطح تک ٹیکنالوجی لا کر بجلی چوری کی روک تھام کی کوشش کر رہے ہیں۔سینیٹر پونجو بھیل نے تھرپارکر، مٹیاری اور عمرکوٹ میں طویل لوڈشیڈنگ کا معاملہ اٹھایا اور انہیں سب سے زیادہ متاثرہ علاقے قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عمرکوٹ میں لوگ روزانہ 14 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔

عوام بل باقاعدگی سے ادا کرنے کے باوجود بجلی سے محروم ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ بجلی چوری کے خلاف محکمانہ کارروائی کیوں نہیں ہو رہی؟ سینیٹر پونجو بھیل نے کہا کہ مقامی افسران رشوت لے کر غیر قانونی کنکشن دیتے ہیں اور بعدازاں میٹر کاٹ کر بجلی بحال کرنے کے لیے طے شدہ رقم وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ بل مکمل ادا کرنے والے صارفین بھی بجلی سے محروم ہیں اور نظام کی خراب کارکردگی کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

چیئرمین و اراکین کمیٹی نے پاور ڈویژن کی جانب سے قائمہ کمیٹی کو سوالات کے جوابات نہ دینے پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے ہدایت دی کہ آئندہ اجلاس میں تمام سوالات کے مکمل اور تفصیلی جوابات پیش کیے جائیں۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر حاجی ہدایت اللہ نے بجلی کے زائد بلوں کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پشاور میں ایک جائیداد جو کرایہ پر دی گئی تھی، پیسکو نے تمام واجبات کلیئر قرار دیئے تھے مگر کرایہ دار کے جانے کے بعد پیسکو نے 23 لاکھ روپے کا واجب الادا بل جاری کر دیا۔

سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ پیسکو حکام نے ان کے منیجر کو 3 لاکھ روپے دے کر بل کلیئر کرانے کی پیشکش کی۔سیکرٹری پاور ڈویژن نے کمیٹی کو یقین دہانی کروائی کہ اس معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔کے-الیکٹرک حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے پاس کل 2100 فیڈرز ہیں جن میں سے 70 فیصد پر لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی جبکہ 30 فیصد فیڈرز پر بجلی چوری کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صارفین کے بلوں کو قسطوں میں تقسیم کر کے ادائیگی کی سہولت دی جا رہی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بجلی کے یونٹس کے لیے رائج سلیب سسٹم بہت سخت ہے اور تجویز دی کہ اس کا سالانہ اوسط کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے۔سیکرٹری پاور ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ 58 فیصد صارفین "محفوظ" زمرے میں آتے ہیں اور انہیں 10 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی منظوری سے حکومت 250 ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے مزید بتایا کہ صارفین کو اپنے میٹر ریڈنگ خود بھیجنے کی سہولت دی گئی ہے اور اب تک 5 لاکھ صارفین نے یہ ایپ ڈائون لوڈ کی ہے جبکہ 2 لاکھ 50 ہزار رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیزیکو نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سب ڈویژن لورا چوک کے رہائشیوں کو روزانہ بغیر ریڈنگ کے تخمینی بل بھیجنے اور سب ڈویژن کے فیڈر بندی شیر خان میں مسلسل خرابی کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے ای ایل آر ورکس ریلیز نمبر 46241، 51911 اور 51910 کی تکمیل کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر پونجو بھیل، سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر سید شبلی فراز، سینیٹر سید کاظم علی شاہ، سینیٹر حاجی ہدایت اللہ خان اور وزارت توانائی و متعلقہ محکموں کے سینئر افسران نے شرکت کی۔