وزیر زراعت و لائیوسٹاک پنجاب سید عاشق حسین کرمانی کی محکمہ زراعت پنجاب، فوڈ سیکورٹی اینڈ ایگریکلچر سنٹر آف ایکسیلنس(فیس) اورپاکستان ایگریکلچرل کولیشن(پیک) کے اشتراک سی''موجودہ زراعت کی صورت حال اور سال 2025-26 کیلئے حکمت عملی''کے موضوع پر ورکشاپ میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت

جمعہ 11 جولائی 2025 19:19

جڑانوالہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جولائی2025ء) محکمہ زراعت پنجاب اور فوڈ سیکورٹی اینڈ ایگریکلچر سنٹر آف ایکسیلنس(فیس)و پاکستان ایگریکلچرل کولیشن(پیک) کے اشتراک سی''موجودہ زراعت کی صورت حال اور سال 2025۔26 کیلئے حکمت عملی''کے موضوع پر ورکشاپ مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ورکشاپ میں وزیر زراعت و لائیو سٹاک پنجاب سید عاشق حسین کرمانی تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔

سیشن میں پارلیمانی سیکرٹری برائے زراعت اسامہ خان لغاری اور سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو کے علاوہ پنجاب ایگریکلچرل کولیشن(پیک)سے کاظمی اور فیس کے چیف آپریٹنگ آفیسر حسن اکرم نے شرکت کی۔ صوبائی وزیر زراعت و لائیو سٹاک سید عاشق حسین کرمانی نے اس موقع پر کہا کہ آج کے مشاورتی سیشن کا مقصد ایگریکلچر کے اسٹیک ہولڈرز سے زرعی سیکٹر کے موجودہ اسٹٹس اور مستقبل کے لائحہ عمل کا ادراک کرنا ہے۔

(جاری ہے)

یہ سیشن مالی سال 2025-26کے لیے زرعی سیکٹر کی بہتری کے لیے قابل عمل تجاویز پیش کرنے میں مثبت پیش رفت ثابت ہو گا۔انھوں نے کہا کہاس سیشن کا مقصد زرعی پیداوار و منافع میں اضافہ اور اس کا تسلسل برقرار رکھنا ہے۔حکومت کسانوں کو انکی اجناس کی صحیح قیمت دلوانے کے لیے کوشاں ہے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ حکومت پنجاب کی وزیر اعلی کی قیادت میں ترجیح ''ٹرانسفارمنگ ایگریکلچر پنجاب''پروگرام کے تحت زرعی سیکٹر کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

حکومت پنجاب نے میکنائزایشن کے فروغ کے لیے 30 ارب روپے کا بلا سود قرض متعارف کروایا ہے۔ اس ضمن میں زرعی مشینری کی رینٹل بنیادوں پر فراہمی کے لیے اگلے سال 10ایگری مالز تعمیر کئے جائیں گے۔ پہلے سے جاری 4زرعی ایگری مالز کا 98فیصد تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کی خصوصی توجہ کاشتکاروں کو جدید نظام آبپاشی کی دستیابی،ریسرچ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے پاک بیج کی فراہمی پر مرکوز ہے۔

حکومت پنجاب نے کسان کارڈ کے پہلے مرحلہ کے تحت 5لاکھ 25ہزار کاشتکاروں کو 57 ارب روپے کا قرض دیا ہے جن میں سے 98فیصد کاشتکاروں نے قرض کی بروقت واپسی کی ہے۔سید عاشق حسین کرمانی نے کہا کہ حکومت ریسرچ اداروں اور یونیورسٹیوں کو ایک دوسرے سے منسلک کر رہی ہے جبکہ زرعی شعبہ میں بہتری کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو سپورٹ کرنے اور زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی پر یقین رکھتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایگری کموڈیٹی مارکیٹنگ کے لیے ورچول اور الیکٹرانک مارکیٹوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس موقع پرپارلیمانی سیکرٹری برائے لاہورزراعت اسامہ خان لغاری نے کہا کہ زرعی شعبہ میں فصلوں کی لاگت کو کم کرنا اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔انھوں نے کہا کہ کسان کارڈ پروگرام کے ذریعے ان پٹس کی قیمتوں میں 70فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

حکومت کو اپنی تمام تر توجہ زرعی ریسرچ پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے کہا کہ پاکستان کی زراعت میں پنجاب کا حصہ 70فیصد ہے۔پنجاب میں زراعت کو ٹرانسفارم کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے جا رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ زرعی سیکٹر میں کارپوریٹ فارمنگ اور کلسٹر فارمنگ کا فروغ وقت کا اہم تقاضا ہے۔افتخار علی سہو نے مزید کہا کہ زرعی شعبہ کو اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے چیلنج کا سامنا ہے جس سے نبرد آزما ہونے کیلئے گرین پاکستان انشیٹیو حکومت پاکستان کا شاندار منصوبہ ہے۔

اس موقع پرڈائریکٹر جنرل گرین کارپوریٹ انیشیٹو پاکستان میجر جنرل شاہد نذیر نے کہا کہ ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے حکومت کو کسانوں کے پروڈکٹ پرائس سے متعلق عدم استحکام کو دور کرنا ہو گا۔انھوں نے کہا کہ کسانوں کو زیر کاشت رقبہ میں اضافہ کے لیے ایجوکیٹ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔میجرجنرل شاہد نذیر نے مزید کہا کہ فارم میکنائزایشن کے حصول کے لیے جدید ٹیکنالوجی،ڈیٹا اکٹھا کرنا اور زرعی ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔

ورکشاپ میں اسٹیک ہولڈرز اور پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندوں نے پہلے سیشن میں فارم ان پٹس کی دستیابی اور فارم اکنامکس کی بہتری کے لیے سیر حاصل گفتگو کی۔دوسرے سیشن میں کسانوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ اور کراپ ڈاورسی فکشن کو منیج کرنے پر بات چیت کی گئی