کراچی،گائے کے کاٹنے سے کسان میں ریبیز کی علامت ظاہر ہونے کا اپنی نوعیت کا پہلا کیس رپورٹ

ہفتہ 12 جولائی 2025 22:05

کراچی،گائے کے کاٹنے سے کسان میں ریبیز کی علامت ظاہر ہونے کا اپنی نوعیت ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جولائی2025ء)بین الاقوامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں گائے سے منتقل ہونے والے ریبیز کے پہلے کیس کی رپورٹ دی گئی ہے جس میں ایک نوجوان کسان متاثر ہوا، اس کی جان 2024 میں کراچی کے انڈس ہسپتال میں بروقت طبی امداد سے بچائی گئی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ تحقیق آ ریبڈ کاؤ بائٹس دا ہینڈ، ڈیٹ فیڈز اٹ‘ کے عنوان سے انٹرنیشنل جرنل آف انفیکشیس ڈیزیزز (آئی جی آئی ڈی) میں شائع ہوئی ہے۔

تحقیق کے مطابق 18 سالہ کسان کو اس وقت گائے نے ہاتھ اور انگوٹھے پر کاٹ لیا جب وہ اسے چارہ دے رہا تھا، خوش قسمتی سے، اسے گائے سے ریبیز منتقل ہونے کے خطرے کا علم تھا، اس نے اسی دن ہسپتال کے ریبیز پریوینشن اینڈ ٹریننگ سینٹر (آر پی ٹی سی) سے رجوع کیا۔

(جاری ہے)

زخم شدید نوعیت کے تھے، جس کے لیے عام طور پر ریبیز امیونوگلوبیولن (آر آئی جی) اور ویکسین دونوں دی جاتی ہیں، لیکن چونکہ کسان کو 4 سال قبل ایک کتے کے کاٹنے کے بعد مکمل طور پر ویکسین دی گئی تھی، اس لیے آر آئی جی کو غیر ضروری قرار دیا گیا اور صرف ویکسین کی خوراکیں دی گئیں جس سے اس کے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہو گئیں۔

ہسپتال سے ڈسچارج کے وقت اسے ہدایت کی گئی کہ گائے کو مشاہدے میں رکھے اور اس کے رویے میں کسی بھی تبدیلی کی اطلاع دے، 3 ہفتے بعد کسان نے اطلاع دی کہ گائے کا رویہ عجیب ہو گیا ہے اور وہ چند دن بعد مر گئی۔تحقیق میں لکھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کو ایک ممکنہ ریبیز کی شکار گائے کی رپورٹ موصول ہوئی، جس کے بعد ایک ٹیم نے گائے کا سر تحقیق کے لیے کاٹ کر حاصل کیا اور باقی جسم کو گہرائی میں دفن کر دیا گیا، دماغی ٹشو پر کیے گئے ریورس ٹرانسکرپشن-پولی میریز چین ری ایکشن (آر ٹی پی سی آر) ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا۔

دیہاتیوں نے تصدیق کی کہ اس گائے کو کچھ دن پہلے ایک آوارہ کتے نے کاٹا تھا، لیکن وہ یہ تصدیق نہ کر سکے کہ وہی کتا دوسرے جانوروں یا انسانوں کو بھی کاٹ چکا ہے یا نہیں۔ریبیز ایک قدیم وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری ہے جو عموماً کسی متاثرہ جانور، خاص طور پر کتے کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہوتی ہے، اور بروقت اور مناسب علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ 100 فیصد مہلک ہے۔

ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 60 ہزار افراد ریبیز سے ہلاک ہوتے ہیں، لیکن غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک میں درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہوتے، زیادہ تر ہلاکتیں دیہی علاقوں میں ہوتی ہیں جہاں لوگ اکثر قسمت پر بھروسہ کرتے ہوئے متبادل علاج پر انحصار کرتے ہیں، لیکن جانبر نہیں ہو پاتے۔ماہرین کے مطابق پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ریبیز ایک مستقل مسئلہ ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت کم مراکز ایسے ہیں جو جانوروں کے کاٹنے کے بعد مناسب علاج فراہم کر سکتے ہیں۔

ریبیز وائرس تمام گرم خون والے جانوروں کو متاثر کر سکتا ہے، لیکن مختلف اقسام کی حساسیت مختلف ہوتی ہے، خاص طور پر ریبیز زدہ کتوں یا گوشت خور جنگلی جانوروں کے کاٹنے سے، مویشیوں میں ریبیز دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ڈاکٹر نسیم صلاح الدین، جو تحقیق کی سربراہ اور انڈس ہسپتال کے انفیکشن ڈیزیز ڈپارٹمنٹ کی سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ بیووائن ریبیز (گائے میں ریبیز) کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے، دیہات میں پہلے بھی مویشیوں، بھینسوں اور گدھوں میں ریبیز کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، لیکن میرے علم کے مطابق یہ پہلا واقعہ ہے کہ ایک شخص کو ریبیز زدہ گائے نے کاٹا ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مویشیوں میں ریبیز ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، کیونکہ یہ نہ صرف لائیو اسٹاک کی صحت کو متاثر کرتا ہے، بلکہ انسانوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ واقعہ حکام کے لیے ایک وارننگ ہونی چاہیے کہ وہ دیہی علاقوں میں ریبیز پر قابو پانے کے اقدامات کریں، جہاں مویشی کسانوں کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہوتے ہیں، گائے کا ریبیز سے مرنا کسان کے لیے معاشی تباہی کے مترادف ہے۔

تحقیق کے مطابق پاکستان میں لائیو اسٹاک کا زرعی شعبے کی کل قدر میں 37.5 فیصد اور مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں 9.4 فیصد حصہ ہے، دیہی گھرانوں کے لیے زراعت اور مویشی پالنا بقا کا ذریعہ ہے، تقریباً 3.5 کروڑ افراد مویشی پالنے سے منسلک ہیں اور اپنی آمدنی کا 40 فیصد اسی شعبے سے حاصل کرتے ہیں۔تحقیق میں کہا گیا کہ یہ کیس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں بیووائن ریبیز انسانوں کو متاثر کر رہی ہے، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، بہت سے جانوروں میں ریبیز کے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے جنہیں مؤثر نگرانی کی ضرورت ہے، انسانوں اور جانوروں کے لیے ریبیز ویکسین کی فراہمی حکومت کی مدد سے یقینی بنائی جانی چاہیے۔

اس میں ایمرجنسی ڈپارٹمنٹس کو مستحکم کرنے، طبی عملے کو تربیت دینے اور آر آئی جی ویکسین کے مناسب ذخیرے کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔2013 میں انڈس ہسپتال میں 13 ہزار 330 جانوروں کے کاٹنے کے کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 12 ہزار 524 (94 فیصد) کتے کے کاٹنے کے، جب کہ باقی 806 (6 فیصد) کیسز دوسرے جانوروں جیسے بلی، گدھے، گھوڑے اور گائے کے کاٹنے کے تھے۔گایوں میں ریبیز کی علامات میں ضرورت سے زیادہ رال بہنا، رویے میں تبدیلی، چڑچڑاپن، پاگل پن شامل ہے، جو بعد میں جسمانی فالج اور موت تک جا سکتا ہے۔