سینیٹر قرۃ العین مری کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کا اجلاس، ایم-6 موٹروے کی صورتحال اور خطے میں بندرگاہوں کے چارجز کا تقابلی جائزہ لیا گیا

جمعہ 11 جولائی 2025 21:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 جولائی2025ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کا اجلاس سینیٹر قرۃ العین مری کی زیر صدارت سکھر-حیدرآباد موٹروے (ایم-6) کی صورت حال کے جائزہ اور خطے میں بندرگاہوں کے چارجز کا تقابلی جائزہ لینے کے لیے منعقد ہوا۔سینیٹ سیکرٹیریٹ کے میڈیا ڈائریکٹوریٹ سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں سینیٹر جام سیف اللہ خان، شہادت اعوان، سعدیہ عباسی اور منظور احمد نے شرکت کی۔

وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات نے کمیٹی کو پی ایس ڈی پی 2025-26 میں شامل 55 غیر منظور شدہ منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ ان میں سے 36 منصوبے سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) اور ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل (ایکنک) سے متعلق ہیں جبکہ 19 ڈویژنل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (ڈی ڈی ڈبلیو پی) کے تحت ہیں۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ پانچ لگاتار اجلاسوں کے بعد سی ڈی ڈبلیو پی نے صرف سات منصوبوں پر ایکنک کو سفارش کی ہے جن کی لاگت 481.964 ارب روپے ہے۔

یہ منصوبے بنیادی طور پر موجودہ سڑکوں کی بحالی اور توسیع پر مرکوز ہیں جن میں کراچی سے حیدرآباد تک این-5 (جی ٹی روڈ) کے 210 کلومیٹر کے حصے شامل ہیں۔ سینیٹر قرۃ العین مری نے ترقیاتی منصوبوں کو حصوں میں مکمل کرنے کی بجائے ایک ہی مرحلے میں ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے این-5 کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کے فوری آغاز کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے حیدرآباد اور مٹیاری کے درمیان دو ٹول پلازہ کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور متعلقہ حکام کو تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے سی ڈی ڈبلیو پی سے منظور شدہ کئی منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کیا جن میں اقبال نیشنل مانیومنٹ اینڈ لائبریری کمپلیکس (اسلام آباد)، ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (شیخوپورہ)، نیشنل کلچرل ہیریٹیج انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے موافق فصلیں تیار کرنے کے لیے سپیڈ بریڈنگ پلیٹ فارم شامل ہیں۔

کمیٹی نے ایک ہی صوبے میں زرعی منصوبوں پر تبادلہ خیال کے دوران کسی ایک منصوبے کو دوسرے صوبے میں منتقل کرنے کی سفارش کی تاکہ مساوی ترقی یقینی بنائی جا سکے۔ این ایچ اے حکام نے ایم-6 موٹروے کے حوالے سے آگاہ کیا کہ زمین کے حصول کا عمل جاری ہے اور اگلے دو سے تین ماہ میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔ چیئرپرسن کے سوال کے جواب میں تصدیق کی گئی کہ منصوبے پر کام مارچ 2026ء میں شروع ہوگا۔

سینیٹر منظور احمد نے بلوچستان کو بڑے موٹر وے منصوبوں سے مستقل طور پر نظرانداز کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرپرسن نے وزارت اور این ایچ اے کو ہدایت کی کہ وہ اگلے اجلاس میں بلوچستان کے جاری اور مستقبل کے منصوبوں کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔ کمیٹی کو منصوبہ بندی اور بحری امور کی وزارتوں نے بندرگاہوں کے چارجز پر بریفنگ دی۔

انکشاف ہوا کہ گوادر پورٹ کے چارجز خطے کی دیگر بندرگاہوں جیسے کہ دبئی کے جبل علی پورٹ سے زیادہ ہیں اور شپنگ لائنز کو کوئی مراعات نہیں دی جاتی ہیں۔ بحری امور کی وزارت نے گوادر پورٹ کو فعال بنانے کے لیے ایک مرحلہ وار منصوبہ پیش کیا جس کا آغاز ٹرانزٹ ٹریڈ ماڈل سے ہوگا۔ ایک اور وجہ پرائیویٹ سیکٹر کی عدم دلچسپی بتائی گئی۔ حکام نے تصدیق کی کہ پاکستان میں بندرگاہوں کے چارجز عام طور پر خطے سے زیادہ ہیں۔

یہ بھی بتایا گیا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے موجودہ چارجز 1994ء کے مقابلے میں کم ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کے پی ٹی سے سپر ہائی وے تک ٹرکوں کو رسائی میں 24 گھنٹے تک تاخیر ہوتی ہے جو چارجز اور اخراجات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ لیاری ایکسپریس وے کو براہ راست بندرگاہ سے منسلک کرنے کا کام جاری ہے۔ کے پی ٹی-پپری ریلوے ٹریک منصوبے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ چیئرپرسن نے بحری امور کی وزارت کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کے پی ٹی اور سپر ہائی وے کے درمیان ایک مختصر اور مخصوص راستے کی تعمیر کی سفارش کی تاکہ رابطہ بہتر ہو اور مسافت کم ہو۔