تمام خطرناک عمارتوں کا سروے کروایا جائے کیونکہ یہ شکایات مل رہی ہیں کہ کچھ عمارتوں کو غلط خطرناک قرار دیا گیا ہے،سعیدغنی
منگل 15 جولائی 2025 16:29
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جولائی2025ء)وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ تمام خطرناک عمارتوں کا سروے کروایا جائے کیونکہ یہ شکایات مل رہی ہیں کہ کچھ عمارتوں کو غلط خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ کراچی سمیت صوبے بھر میں تمام مخدوش عمارتوں کے سروے کے لئے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں کمیٹیاں موجود ہیں ان کمیٹیوں میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز(آباد)، پاکستان انجینئرنگ کونسل اور پاکستان کونسل آف آرکیٹیکٹ اینڈ ٹائون پلاننرز کا ایک ایک رکن شامل کیا جائے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز صوبے بھر میں مخدوش اور خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کے حوالے بنائی گئی کمیٹی کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری لوکل گورنمنٹ سندھ وسیم شمشاد، مئیر کراچی مرتضی وہاب، کمیشنر کراچی سید حسن نقوی، ڈی جی ایس بی سی اے شاہ میر بھٹو، ڈائریکٹر ایڈمن ایس بی سی اے مشتاق سومرو، آباد کے چیئرمین حسن بخشی، وائس چیئرمین طارق عزیر، پاکستان انجینئرنگ کونسل کے لیفٹیننٹ(ر)محمد اقبال، پاکستان کونسل آف آرکیٹیکٹ کے رکن سہیل بشیر،انجنئیر عارف بلگرامی، ڈپٹی کمشنر سائوتھ جاوید لطیف کھوسو، ایم سی لیاری حماد این ڈی خان اور دیگر موجود تھے۔
(جاری ہے)
اجلاس میں کراچی سمیت سندھ بھر میں 588 مخدوش عمارتوں، 59 انتہائی مخدوش عمارتوں سمیت دیگر پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں کمشنر کراچی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت تک 59 انتہائی مخدوش قرار دی گئی عمارتوں میں سے 29 عمارتوں کو خالی کرالیا گیا ہے اور ان کے رہائشیوں کا ڈیٹا بھی مرتب کرلیا گیا ہے جبکہ باقی مانندہ عمارتوں کو بھی جلد خالی کروایا جارہا ہے تاکہ خدانخواستہ کوئی بڑا سانحہ رونما نہ ہو۔ اس موقع پر وزیر بلدیات سندھ و سربراہ کمیٹی سعید غنی کی کہا کہ تمام خطرناک عمارتوں کا سروے کروایا جائے کیونکہ یہ شکایات مل رہی ہیں کہ کچھ عمارتوں کو غلط خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ڈپٹی کمیشنرز کی نگرانی میں اضلاع کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل ہیں ان کمیٹیوں میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز، پاکستان انجینئرنگ کونسل اور پاکستان کونسل آف آرکیٹیکٹ اینڈ ٹائون پلاننرز کا ایک ایک رکن شامل کیا جائے اور یہ سروے تیزی سے مکمل کیا جائے اور اس کی رپورٹ آئندہ ہفتہ اس کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی جائے۔ سعید غنی نے کہا کہ پہلے مرحلہ میں متاثرہ بغدادی لیاری کی عمارت کے متاثرین اور جو 29 عمارتیں اب تک خالی کروائی گئی ہیں ان کے مکینوں کو 3 ماہ کا کرایہ سندھ حکومت ادا کرے گی۔ اس کے بعد پگڑی اور مالکانہ حقوق کے مکینوں کے لئے مذکورہ کمیٹی اپنی سفارشات پیش کرے گی، جس کے تحت ان کو معاوضہ یا دیگر مراعات فراہم کی جائیں گی۔ سعید غنی نے کہا کہ اس دیرینہ مسئلہ کے صاف و شفاف حل اور خطرناک عمارتوں کے حوالے سے سندھ حکومت انتہائی سنجیدگی سے غور کررہی ہے اور اس مسئلہ کے حل کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں پبلک سیکٹر کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹرز کے اسٹیک ہولڈرز سے بھی تجاویز طلب کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیٹی میں پلانرز، آرکیٹیکٹ اور انجینئرز اور آباد کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ وہ حالات کے تناظر کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کن تجاویز دے سکیں۔ سعید غنی نے کہا۔کہ اس کمیٹی میں شامل تمام تکنیکی ماہرین، انجنئیرز، پبلک و پرائیویٹ سیکٹرزکی جانب سے ملنے والی تجاویز کی روشنی میں حکومت ان عمارتوں کے مکینوں اور متاثرین کے لئے شارٹ اور لانگ ٹرم پالیسی مرتب کرے گی اور یہ کمیٹی اس بات کا بھی فیصلہ کرے گی کہ سروے کے بعد ان عمارتوں کے کرایہ داروں، پگڑی اور مالکانہ حقوق کے رہائشیوں کی کس طرح آبادکاری کو یقینی بنایا جائے، ساتھ ہی یہ کمیٹی ان عمارتوں کو جو معمولی یا اس سے زائد مینٹیننس کے بعد رہائش کے قابل بنائے جانے کے حوالے سے بھی اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ سعید غنی نے کہا کہ ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں بننے والی کمیٹیاں روزانہ کی بنیاد پر سروے کی رپورٹ کمشنر کراچی کے پاس جمع کروائیں گی جو اس حوالے سے مذکورہ کمیٹی کے اجلاس میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کریں گے۔ اس موقع پر کمیٹی ممبران نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اس بات کو ہر صورت یقینی بنائے گی کہ کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہونے پائے اور جو عمارتیں اس قابل ہیں کہ ان کو خالی کروانے کی بجائے ان کو دوبارہ کچھ مینٹیننس کرکے رہائش کے قابل بنایا جاسکتا ہے ان کو رہائش کے قابل بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے جبکہ خو عمارتیں انتہائی مخدوش ہیں ان کو مرحلہ وار خالی کروا کر اس کے لئے تکنیکی ماہرین، انجینئرز اور آباد و دیگر پرائیویٹ و پبلک سیکٹرز کی مشاورت سے پالیسی مرتب کی جائے گی کہ کس طرح ان عمارتوں میں رہائش پذیر افراد کے حقوق کا تحفظ کرکے ان کی بحالی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔