۵ ملک کے محکوم اقوام ومظلوم عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ مزید ناقابل برداشت ہوچکا ہے،عبدالقہار خان ودان

منگل 15 جولائی 2025 23:15

c!کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 جولائی2025ء) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عبدالقہار خان ودان نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام بعنوان’’ بلوچستان کی مخدوش صورتحال، بلوچ نسل کشی، ماورائے عدالت خواتین کی گرفتاری، انسانی حقوق کی پائمالی اور مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں ترمیم کیخلاف‘‘منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے محکوم اقوام ومظلوم عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ مزید ناقابل برداشت ہوچکا ہے،اقتدار کے لیے پارٹیوں کی تخلیق کیجاتی ہے ، من پسند افراد کو سیاستدان کا نام دینے اور سیاسی پارٹیوں کی تخلیقی سے قومی مسائل حل نہیں ہوسکتے ،آج بھی پشتون قومی سوال حل طلب ہے، اس صوبے اور کے عوام کے مسائل کا حل اور ان کے فیصلے کرنے کا اختیار آج بھی اس سیمینار میں بیٹھنے والوں کو حاصل ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کو 78سال جبکہ پشتون ، بلوچ یہاں ہزاروں سال سے آباد اور اپنی تاریخ ، ثقافت ، زبان اور اعلیٰ روایات رکھتے ہیں ، ملک کو معاہدے کے تحت بنایا گیا اور اس کے لیے 1940کے قراردادکو پیش کیا گیالیکن بدقسمتی سے اس قرار داد مقاصد سے انحراف کیا گیا۔ جس میں دو چیزیں واضح تھی کہ یہ ملک کثیر القومی ملک ہوگا اس میں پشتون ،بلوچ، سندھی ، سرائیکی ، پنجابی ، بنگالی یہ خودمختار ہوں گے اور انہیں اپنے ساحل وسائل پر اختیار حاصل ہوگا ۔

26سال تک ملک کو بغیر آئین کے رکھا گیا پھر جس طرح آئین بنا اور اس آئین پر بھی آج تک اس کے اصل روح کے مطابق عملدر آمد نہیں کیا جارہا ۔ آج بھی ملک میں آئین پائمال ، جمہورکی حکمرانی ، پارلیمنٹ کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کیا جارہا ۔ملک معاشی بحرانوںاور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 8فروری 2024کے انتخابات میں عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈال کر ملک میں فارم47کی حکومت /حکومتوں کے ذریعے 26ویں آئین ترمیم جس سے عدلیہ کو جی حضوری پر مجبور کیا گیا ، پیکا ایکٹ کے ذریعے صحافیوں کی آزادی سلب کی گئی ، SIFCکے ادارے کا قیام لاکر اٹھارویں آئینی ترمیم کے برخلاف جاکر صوبائی خودمختیاری چھین لی گئی ، مائنز ومنرلز ایکٹ کے ذریعے اقوام وعوام کے وسائل ، معدنیات، زمینوں کی الاٹمنٹ اور قبضہ گیری شروع کردی گئی ہے ۔

اور آج 27ویں آئینی ترمیم کی تیاری ہورہی ہے۔ ان مسلط حکومتوں کا مقصد غیر آئینی ،غیر جمہوری ، غیر قانونی اور عوام دشمنی پر مبنی ناروا اقدامات ، ترامیم ، قوانین کو عملی جامع پہنانا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں کو ماضی کی غلطیوں کو بھول کر ایک دوسری پر انگلی اٹھانے کی بجائے ماضی سے سیکھنا ہوگا۔ ملک میں آئین کی حکمرانی ، قوموں کی برابری پر مبنی حقیقی جمہوری فیڈریشن کے قیام کو عمل میں لانا ہوگا، اگر کوئی آئین کو تسلیم نہیں کرتا یا بحیثیت قوم ہماری برابری تسلیم نہیں کرتا تو ہم کسی کے غلام نہیں ۔

یہ ملک کسی نے فتح نہیں کیا بلکہ ہمارے آبائود اجداد نے اپنی تاریخی سرزمین کو انگریزوں کی غلامی سے نجات اور اپنے وطن اور اس کے وسائل کے دفاع کے لیے اپنے سروں کو نذرانہ پیش کیا۔ آج کچھ لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ ان کے آبائواجداد انگریزوں کے غلام رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل عوامی پارٹی کے پروگرام کا سبوتاژ یا انحراف یہ ایک سیاسی غلطی تھی یا کچھ اور اس کا فیصلہ تاریخ کریگی ۔

نیپ کے مقاصد یہ تھے کہ ایک پاکستانی فیڈریشن کی تشکیل تھی اور فیصلہ تھا کہ ون یونٹ کی مخالفت کی جائیگی اور پاکستان میں تاریخی، جغرافیائی،لسانی بنیادوںپربنگال، پنجاب،بلوچستان، سندھ اور پشتونستان کے نام سے صوبے بنائے جائینگے۔بدقسمتی سے یا تو پارٹی کی قیادت برٹش بلوچستان اور براہوئی کنفیڈریسی (قلاتی بلوچستان) کے فرق کو نہ سمجھ سکی یا پھر دانستہ طور پر پارٹی کے منشور سے انحراف کیاگیا۔

انہوں نے کہاکہ ملک کے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ آئینی بحران ہے،آئین میں یہ ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہوگی ، پارلیمنٹ خودمختارہوں گی ، منتخب پارلیمنٹ سے داخلہ وخارجہ پالیسیوں کی تشکیل ہوں گی اور پارلیمان کا ہر نمائندہ اور سپاہی سے جرنل اور ادارے کا ملازم یہ حلف لیتے ہیں کہ ہم اس ملک اور اس کے آئین کے وفادار ہوں گے اور جو اس سے کلہواڑ کریگا اس کی سزا سزائے موت ہوں گی ۔

لیکن ملک میں پے در پے مارشل لائوں نے آئین کو پامال کرکے حقیقی جمہوریت کا راستہ روکاجارہا ہے، آج بھی آئین پائمال ہے اور اداروں کی سیاست میں مداخلت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کا قیام اور اس کا مقصد آئین کو تحفظ دینا ہے، آئین کی بالادستی ہو ، پارلیمنٹ کی خودمختاری ہو، ہر ادارہ پارلیمنٹ، فوج ، عدلیہ اپنے آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض کی انجام دہی کرے۔

اور جو آئین سے انحراف کریگا اسے آئین کے مطابق سزا دینی چاہیے اور اس کی سزا آئین میں واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو چلانے اور بچانے کا راستہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پروگرام میں شامل ہیںسب کو ملکر کر آئین کی تحفظ کے لیے جدوجہد کرنی ہوں گی اگر آئین نہیں ہوگا تو کوئی بھی کسی کا غلام نہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے اور ہر ادارہ اپنے آئینی فریم میں کام کری