سندھ میں نفرتوں کی بنیاد سندھی زبان کا بل نہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بوریوں میں لاشیں ڈال کر سندھ بھیجیں، سردارامیربخش خان بھٹو

جمعرات 17 جولائی 2025 16:21

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جولائی2025ء)سابق وزیراعلیٰ سندھ سردارممتازعلی بھٹوکے صاحبزادے سردار امیر بخش خان بھٹو نے کہاہے کہ سندھ میں نفرتوں کی بنیاد سندھی زبان کا بل نہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بوریوں میں لاشیں ڈال کر سندھ بھیجیں۔ سردار امیر بخش خان بھٹونے جمعرات کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایم کیو ایم حقیقی کے رہنما آفاق احمد نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں کہاتھاکہ مرحوم سردار ممتاز علی خان بھٹو نے اپنی وزارت اعلی کے دور میں سندھی زبان کا بل پاس کروا کر سندھ میں دیہی اور شہری آبادی کے درمیان تفریق پیدا کی، جس کے اثرات آج تک قائم ہیں۔

یہ بات سراسر غلط ہے۔ سندھی زبان کے بل کے ذریعے سردار ممتاز علی خان بھٹو نے صرف ایک حقیقت کو عملی شکل دی۔

(جاری ہے)

اگر سندھ میں سندھی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دیا جاتا، تو کیا اترپردیش، مہاراشٹرا یا بہار کی زبانوں کو سرکاری زبان بنایا جاتا سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان تسلیم کرنے سے سندھ میں دیہی اور شہری آبادیوں میں تضاد پیدا نہیں ہوا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے لوگ، جنہیں سندھ کی سرزمین نے پناہ دی، وہ آج تک خود کو سندھ کا حصہ ہی نہیں سمجھتے، اور آج بھی اپنے ابتدائی اور پیدائشی علاقوں سے ناطہ جوڑے ہوئے ہیں۔

اسی لیے اب تو انہیں گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر اجرک کا پرنٹ بھی برداشت نہیں ہوتا۔سردار امیر بخش خان بھٹو نے کہا کہ سندھ میں نفرتوں کی بنیاد سندھی زبان کا بل نہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بوریوں میں لاشیں ڈال کر سندھ بھیجیں۔یہ کتنی نامناسب بات ہے کہ جن لوگوں نے ان کو اپنی بانہیں کھول کر پناہ دی، انہی کی سرزمین کو تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور کراچی کو اپنا علیحدہ دارالحکومت بنانے کی کوشش ہو رہی ہے، جبکہ مقامی سندھیوں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔اگر سندھ میں گاڑی کی نمبر پلیٹ پر اجرک نہیں چھپے گا تو کیا پان یا سپاری چھاپی جائے گی سندھ کی ثقافت اور تہذیب کو زندہ رکھنا ہر سندھی کا فرض ہے، اور کوئی بھی سندھی اس میں کوتاہی نہیں کرے گا۔