کھیلوں میں صنفی تفریق کا خاتمہ ضروری، انسانی حقوق چیف

یو این جمعرات 17 جولائی 2025 20:30

کھیلوں میں صنفی تفریق کا خاتمہ ضروری، انسانی حقوق چیف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے رکن ممالک اور دنیا بھر میں تمام کھیلوں کی ٹیموں پر زور دیا ہے کہ وہ اس شعبے میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی صنفی تفریق کا خاتمہ کریں جہاں اب بھی سبھی کو مساوی مواقع میسر نہیں ہیں۔

سوئزرلینڈ میں جاری یورو فٹ بال چیمپئن شپ کے موقع پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران خواتین کے کھیلوں کے مقابلوں نے نمایاں توجہ حاصل کی ہے اور 2023 میں خواتین کا فٹ بال ورلڈ کپ تقریباً ایک ارب لوگوں نے دیکھا۔

اس توجہ کی بدولت دقیانوسی تصورات اور خواتین کے کھیلوں میں طاقت اور اختیار کی حرکیات کے حوالے سے اہم بات چیت شروع ہوئی ہے۔

Tweet URL

ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ خواتین کے کھیلوں کی دنیا میں بہت سے گروہوں کو رکاوٹوں اور تفریق کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

ایل جی بی ٹی کیو آئی + خواتین، سر پر سکارف اوڑھنے والی، جسمانی معذور اور پسماندہ قومی و نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کے لیے یہ مسائل اور بھی زیادہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی ایسی دنیا تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جس میں خواتین اور لڑکیوں کی ان کے تمام تر تنوع کے ساتھ مساوی طور پر قدر کی جائے اور انہیں بہتر توجہ اور معاوضہ ملے۔

اجرتوں میں فرق

اگرچہ فٹ بال کے پیشہ ور مرد کھلاڑی بڑی ٹیموں/کلبوں میں سالانہ 1.8 ملین ڈالر کماتے ہیں لیکن ایسی ہی ٹیموں میں کھیلنے والی خواتی کھلاڑیوں کی سالانہ اوسط آمدنی تقریباً 24 ہزار ڈالر تک ہوتی ہے۔ چھوٹی ٹیموں میں کھیلنے والی خواتین کھلاڑی اس سے بھی کم آمدنی پاتی ہیں جو اوسطاً 10,900 ڈالر تک ہے۔

وولکر ترک نے کہا ہے کہ مستحکم آمدنی کے بغیر خواتین دیگر کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جس کے باعث انہیں تربیت اور اپنے کھیل میں بہتری کے لیے کہیں کم وقت اور توانائی دستیاب ہوتی ہے۔

روزگار میں مناسب تحفظ کی کمی کے باعث معاوضوں کا فرق اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ خواتین کو زچگی میں بہت کم چھٹیاں ملتی ہیں اور جب انہیں ہراسانی کا سامنا ہو تو ان کے لیے تحفظ اور ازالے کا حصول آسان نہیں ہوتا۔

پیشہ وارانہ کھیلوں کے کلبوں اور تنظیموں میں قائدانہ عہدوں پر خواتین کی نمائندگی بھی بہت کم ہے۔ دنیا بھر میں کھیلوں کی 31 تنظیموں میں سے صرف تین کی سربراہ خواتین ہیں۔

تاہم، اب بعض تنظیموں نے اپنے ہاں تبدیلی کا عمل شروع کر رکھا ہے جو خواتین کھلاڑیوں کو زچگی کی چھٹیاں دے رہی ہیں اور انہیں بہتر معاوضوں کی فراہمی کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

سماجی تبدیلی کی ضرورت

وولکر ترک نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ کھیلوں کے شعبے میں تفریق کا خاتمہ کرنے کے جامع نظام قائم کریں اور انہیں مردوں کے مساوی معاوضوں کی ادائیگی اور ہراسانی کی صورت میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ضمن میں ذرائع ابلاغ خواتین کے کھیلوں کی درست اور اخلاقی اصولوں کےمطابق کوریج کر کے اچھائی کی قوت بن سکتے ہیں۔ کھیل سماجی تبدیلی لاتے ہیں اور ان سے تمام لوگوں کے لیے شفافیت، احترام اور مساوی مواقع کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ سبھی کو کھیلوں کی ایسی دنیا کی حمایت کرنا ہو گی جہاں خواتین اور لڑکیاں ترقی کر سکیں۔