مہاجرین مقیم پاکستان تحریک آزادی کشمیر کے اصل وارث ہیں، ان کا ووٹ کا حق کوئی نہیں چھین سکتا، سمعیہ ساجد

پیر 21 جولائی 2025 16:59

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جولائی2025ء)مرکزی چیئرپرسن مسلم کانفرنس خواتین ونگ اور حلقہ ویلی 6 کے پی کے ٹکٹ ہولڈر سمعیہ ساجد نے کہا ہے کہ پاکستان میں مقیم دس لاکھ کشمیری مہاجرین تحریکِ آزادی کشمیر کے اصل وارث ہیں، انہیں کسی بھی آئینی، قانونی یا اخلاقی بنیاد پر ووٹ کے حق سے محروم کرنا ایک سنگین ناانصافی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ مہاجرین کو ووٹ کا حق دلوانے کا تاریخی کارنامہ مجاہدِ اول سردار محمد عبدالقیوم خانؒ کا مرہونِ منت ہے، جنہوں نے نہ صرف ان مہاجرین کی شناخت کو آئینی حیثیت دی بلکہ ان کی سیاسی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی نشستوں کا بندوبست بھی کروایا۔انہوں نے کہا کہ مسلم کانفرنس کبھی بھی مہاجرین کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گی، بلکہ ہمیشہ ان کے آئینی اور سیاسی حقوق کی علمبردار رہے گی۔

(جاری ہے)

آزادکشمیر میں ان دنوں مہاجرین کے ووٹ کے حق سے متعلق جو بحث جاری ہے، اس کا تاریخی تناظر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سمعیہ ساجد نے خبردار کیا کہ ایک طرف بھارت 5 اگست 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کر رہا ہے، غیر ریاستی باشندوں کو لاکر مقامی کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کی سازش میں مصروف ہے، تو دوسری جانب ہم خود اپنے ان کشمیریوں کی تعداد اور حیثیت کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے جدوجہدِ آزادی کی قیمت مہاجرت کی صورت میں چکائی۔

انہوں نے کہا کہ اگر گلگت بلتستان کے عوام کو آج تک استصوابِ رائے کے تناظر میں ووٹ کا حق نہیں دیا گیا، اور اب پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کو بھی ووٹ سے محروم کیا جا رہا ہے تو یہ درحقیقت تحریکِ آزادی کشمیر سے غداری کے مترادف ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی انتخابی نشستوں پر سوال اٹھانا ایک کھلی سازش ہے۔ یہ نشستیں نہ صرف ہماری تاریخی شناخت کا حصہ ہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے تمام اکائیوں کی نمائندگی کو یقینی بناتی ہیں۔

سمعیہ ساجد نے واضح کیا کہ مسلم کانفرنس کا موقف روزِ اول سے دوٹوک اور واضح رہا ہے کہ کشمیری مہاجرین ریاست کے برابر کے وارث ہیں۔ اگر آج ان کو ووٹ کا حق نہیں دیا جائے گا تو کل جب اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کا وقت آئے گا، تو بھارت کیسے تسلیم کرے گا کہ یہ لوگ بھی کشمیری ہیں اور اس عمل کا حصہ بننے کے اہل ہیں انہوں نے کہا کہ مہاجرین کی ہجرت محض جغرافیائی نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی بنیادوں پر تھی۔

آزادکشمیر ہمارے اسلاف کی فکری جدوجہد کا ثمر ہے اور ہم اپنی شہریت کو ریاستی مستقبل کے فیصلے سے مشروط سمجھتے ہیں۔سمعیہ ساجد نے کہا کہ 1970 میں جب آزاد جموں و کشمیر کی پہلی قانون ساز اسمبلی قائم ہوئی تو اس وقت کے دور اندیش قائدین نے مہاجرین کی نشستیں مخصوص کیں تاکہ ریاست کی مکمل اور متوازن نمائندگی ممکن ہو۔ ان نشستوں کو 1974 کے عبوری آئین میں مکمل تحفظ حاصل ہے اور یہ کسی وقتی یا سیاسی مطالبے پر ختم نہیں کی جا سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے جعلی اسناد اور جعلی سٹیٹ سبجیکٹ کی مخالفت کرتی آئی ہیں اور اس بات کی قائل ہیں کہ مہاجرین کی فہرستوں اور شناختی عمل کو شفاف بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ چند افراد کے جعلی کاغذات کی بنیاد پر پوری کمیونٹی کو نشانہ بنانا ظلم ہے، بلکہ اصل حل اس نظام کی اصلاح ہے، نہ کہ مہاجرین کو سیاسی عمل سے خارج کرنا۔ مہاجرین مقیم پاکستان جن کے ووٹ ہیں ، ان کا ایک الگ کمپیوٹرائز ڈ ویلی کارڈ جاری جا ئے جس کا مکمل کارڈ موجود ہو جوکہ نادرہ اور الیکشن کمیشن سے منسلک ہو۔

سمعیہ ساجد نے اس موقع پر مسلم کانفرنس کی قیادت، بالخصوص صدر جماعت سابق وزیرِاعظم سردار عتیق احمد خان کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم کانفرنس ایک نظریاتی جماعت ہے جس نے ہر دور میں مہاجرین، تحریک آزادی کشمیر اور ریاست جموں و کشمیر کی وحدت و شناخت کے تحفظ کے لیے آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردار عتیق احمد خان نہ صرف ریاستی حقوق کے نگران ہیں بلکہ ان کی قیادت میں مسلم کانفرنس مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر بھی کشمیریوں کا مؤقف پیش کرتی رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کا دور تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، کشمیریوں کے مشترکہ مفاد کو فوقیت دیں، اور مہاجرین کو وہی مقام دیں جو تحریکِ آزادی کشمیر نے انہیں دیا تھا۔