وزیراعظم نے ایک بارپھرنیٹ میٹرنگ پالیسی پرنظرثانی کا عمل رکوا دیا

پاور ڈویژن نے وزارت اطلاعات و نشریات کے ذریعے ایک بیانیہ تشکیل دینا تھا جس کے بعد کابینہ میں سمری پیش کی جانی تھی

پیر 21 جولائی 2025 21:23

وزیراعظم نے ایک بارپھرنیٹ میٹرنگ پالیسی پرنظرثانی کا عمل رکوا دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جولائی2025ء)وزیر اعظم شہباز شریف نے تیسری مرتبہ نیٹ میٹرنگ پالیسی کے خلاف سرکاری مہم کو روکنے کی ہدایت جاری کی ہے، اس حوالے سے قیمت خرید میں رد و بدل کی کوئی رسمی سمری ان کے دفتر تک پہنچنے سے پہلے ہی اس مہم کو منجمد کر دیا گیا۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاور ڈویژن کے ایک سینئر افسر نے بتایا ہے کہ ہمیں وزیر اعظم آفس کی جانب سے نیٹ میٹرنگ کے خلاف مہم روکنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ پاور ڈویژن نے وزارت اطلاعات و نشریات کے ذریعے ایک بیانیہ تشکیل دینا تھا جس کے بعد کابینہ میں سمری پیش کی جانی تھی تاہم’ہمیں تیسری بار پیچھے ہٹنے کا کہا گیا ہے۔افسر کے مطابق اگرچہ ایسی مہمات نے نیٹ میٹرنگ کے ذریعے سولر سسٹمز کے پھیلاؤ کو سست کر دیا ہے لیکن اس کے برعکس ہائبرڈ سولر سسٹمز کی غیر مربوط توسیع تیزی سے بڑھی ہے، جو قومی گرڈ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہی ہے بلکہ دن کے اوقات میں بجلی کی طلب میں کمی لا کر اضافی صلاحیت کے مسئلے کو مزید گھمبیر بنارہی ہے۔

(جاری ہے)

اس سے قبل کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے نیٹ میٹرنگ کے لیے بجلی کی قیمت خرید میں تبدیلی کی منظوری دی تھی، تاہم وفاقی کابینہ نے اسے مسترد کر دیا، یہ فیصلہ سول سوسائٹی اور بجلی پیدا کرنے والے صارفین کی جانب سے شدید تنقید کے بعد کیا گیا۔10 جولائی کو وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ایک نظرثانی شدہ منصوبہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے، جس کے تحت نیٹ میٹرنگ میں سرمایہ کاری کی وصولی کا دورانیہ ڈیڑھ سال سے بڑھا کر 2 سے 3 سال کیا جائے گا۔

انہوںنے کہاکہ اگر اقدامات نہ کیے گئے تو سولر سسٹمز کا پھیلاؤ قومی گرڈ میں اضافی بجلی کی موجودگی کے مسئلے کو مزید بڑھا دے گا، انہوں نے کہا کہ اضافی بجلی کی فروخت اور نیٹ میٹرنگ کے پھیلاؤ کو محدود کرنے سے گرڈ میں استحکام آسکتا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ صارفین نے نیٹ میٹرنگ حکومت کی پالیسی کے تحت اپنائی ہے، اس لیے انہیں سزا نہیں دی جائے گی لیکن موجودہ صورت میں صارفین سے خریدی گئی بجلی کی قیمت ’غیر منصفانہ‘ ہو چکی ہے، اگر اصلاح نہ کی گئی تو مستقبل میں نیٹ میٹرنگ والے صارفین بھی اربوں روپے کے بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہوں گے۔

پاور ڈویژن نے وزیر اعظم اور کابینہ کے لیے ایک سمری تیار کی تھی جس میں تجویز دی گئی تھی کہ نیٹ میٹرنگ کے تحت خریدی گئی بجلی کا موجودہ فی یونٹ نرخ 27 روپے سے کم کر کے 11.30 روپے کر دیا جائے، جو کہ موجودہ آئی پی پیز کی اوسط سولر جنریشن ٹیرف کے مطابق ہے۔رپورٹ کے مطابق بلنگ اور سیٹلمنٹ کا نیا نظام اور نیٹ میٹرنگ کے نئے ضوابط بھی تجویز کیے گئے تھے۔

پاور ڈویژن کے مطابق فی یونٹ 27 روپے کی موجودہ قیمت خرید ناقابل برداشت اور غیر پائیدار ہے، حالانکہ بجلی تقسیم کار کمپنیاں، بشمول کی-الیکٹرک، اکثر صارفین کو بروقت ادائیگی نہیں کرتیں۔عملی طور پر نیٹ میٹرنگ صارفین کو اپنے بھاری بھرکم بلوں کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے، لیکن یہ قومی گرڈ کی دن کے وقت کی طلب کو بھی کم کرتی ہے، جس سے اضافی بجلی کی پیداوار ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔

بجلی کی ناقابل برداشت اور مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ہزاروں صنعتی اور متوسط طبقے کے رہائشی صارفین کو مجبور کیا کہ وہ نیٹ میٹرنگ اختیار کریں تاکہ اپنے بجلی کے اخراجات پر قابو پا سکیں، کیونکہ حکومتیں اور بجلی کمپنیاں بجلی کی فراہمی میں بہتری لانے میں ناکام رہیں۔پاور ڈویژن نے پہلے تجویز دی تھی کہ موجودہ نیٹ میٹرنگ صارفین کے لیے نرخوں میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے، لیکن نئے آنے والے صارفین کے لیے کم نرخ اور سینکشنڈ لوڈ کے مطابق مقررہ چارجز نافذ کیے جائیں۔

تجویز کیا گیا کہ نیپرا موجودہ قیمت خرید اور سیٹلمنٹ طریقہ کار کو ’معقول‘ بنائے، کیونکہ اس نے ماضی میں نیٹ میٹرنگ کی قیمت خرید کو 9-10 روپے سے بڑھا کر پہلے 19 روپے اور پھر 27 روپے فی یونٹ کر دیا تھا۔سرکاری تخمینوں کے مطابق ملک بھر میں رہائشی، تجارتی اور صنعتی سطح پر تقریباً 3 لاکھ 25 ہزار نیٹ میٹرنگ کنیکشنز موجود ہیں، جن کی مجموعی تنصیب شدہ صلاحیت تقریباً 6500 میگاواٹ ہے۔

پاور ڈویژن اور ڈسکوز نے بتایا کہ تقریباً اتنے ہی یا اس سے زیادہ سسٹمز زیرِ تکمیل ہیں، تاہم یہ تخمینے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سولر پینل امپورٹ ڈیٹا پر مبنی ہیں، جنہیں ایف بی آر کی طرف سے رپورٹ کردہ تجارتی بنیادوں پر منی لانڈرنگ کیسز کی بنیاد پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے چیلنج کیا ہے۔رپورٹس کے مطابق نیٹ میٹرنگ کے سب سے زیادہ کنکشنز لاہور میں ہیں (تقریباً 25 فیصد)، اس کے بعد راولپنڈی میں 11 فیصد، کراچی میں 8.5 فیصد، ملتان اور اسلام آباد میں 7.5 فیصد، فیصل آباد میں 5 فیصد اور پشاور، بہاولپور، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ میں تقریباً 3.7 فیصد ہیں،ان کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے سبسڈی والے سولر کنیکشن بھی عوام کو فراہم کیے جا رہے ہیں، جن کی لاگت ٹیکس دہندگان اٹھا رہے ہیں، جب کہ آف گرڈ اور ہائبرڈ سسٹمز بھی الگ سے لگائے جا رہے ہیں۔