قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ کا اجلاس، ملک کے فلاحی نظام کے اہم پہلوئوں کا جائزہ
جمعہ 25 جولائی 2025
20:30
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جولائی2025ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ کا گیارہواں اجلاس پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت کمیٹی کے چیئرمین میر غلام علی تالپور نے کی۔اجلاس میں پاکستان کے فلاحی نظام کے اہم پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا، خاص طور پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے نفاذ میں درپیش رکاوٹوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
کمیٹی نے بینکاری نظام خاص طور پر کمرشل بینکوں کی جانب سے مستحق افراد کے بینک اکائونٹس کھولنے میں ہچکچاہٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کمزور طبقات کے لیے فوری اصلاحات پر زور دیا۔ابتدائی ایجنڈے کے طور پر وزارت نے سابقہ اجلاس میں دی گئی ہدایات پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ پیش کی تاہم سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ جوابات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اراکین نے وزارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کو فوری طور پر اعلیٰ سطح پر اٹھائے۔
(جاری ہے)
اجلاس میں بی آئی ایس پی کے مستفیدین کی مالی شمولیت میں حائل رکاوٹوں پر مفصل گفتگو ہوئی۔ اراکین نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ نجی مالیاتی ادارے (پی ایف آئی ایس) اب بھی روایتی صارفین کو ترجیح دے رہے ہیں اور مستحق افراد کے اکائونٹس کھولنے سے گریزاں ہیں۔ اس کے جواب میں سیکرٹری بی آئی ایس پی نے اس مسئلہ کے حل کی تفصیلات بیان کیں جن میں جسمانی طور پر بی آئی ایس پی سہولت پر مبنی اکائونٹس اور دوسرا سی این آئی سی سے منسلک موبائل سمز کے ذریعے بائیومیٹرک تصدیق والے ڈیجیٹل والٹس شامل ہیں۔
جسمانی اکائونٹس کا پائلٹ پر اجیکٹ 14 اگست کو کراچی میں شروع ہوگا جو یوم آزادی کے موقع پر مالی شمولیت کی ایک علامت ہوگا۔ دونوں نظاموں کا ابتدائی دورانیہ چھ ماہ ہوگا جس کے بعد جنوری 2026ء میں ان کا جامع جائزہ لیا جائے گا۔کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے پسماندہ علاقوں میں ان دونوں نظاموں سے متعلق موثر آگاہی اور خصوصی تربیتی پروگراموں کا انعقاد ضروری ہے تاکہ عوام کو ان سہولیات سے بھرپور فائدہ حاصل ہو سکے۔
اجلاس میں کراچی میں حالیہ عمارت گرنے کے واقعہ کے تناظر میں بے گھر ہونے والی خواتین کے لیے بی آئی ایس پی کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ وزارت غربت کے خاتمے اور بی آئی ایس پی کے سیکرٹری نے واضح کیا کہ رہائش اور پناہ گاہوں کا معاملہ آئینی طور پر صوبائی دائرہ اختیار میں آتا ہے۔اجلاس کے دوران بی آئی ایس پی کی میڈیا مہمات اور تشہیر پر آنے والے اخراجات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھے۔
اراکین نے مالی سال 2024-25 اور 2025-26 کے مکمل اخراجات کی تفصیلات طلب کیں، کیونکہ پیش کردہ ابتدائی رپورٹس ناکافی پائی گئیں۔عملی چیلنجز جیسے کہ ادائیگیوں میں تاخیر کو روکنے کے لیے کیمپ سائٹس پر دوہری تصدیق (two-factor authentication) کے نظام کی بہتری پر بھی گفتگو ہوئی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ معاہدے کی خلاف ورزی پر حبیب بینک لمیٹڈ کے ساتھ معاہدہ ختم کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر ناکارہ بینکوں کے خلاف بھی سخت اقدامات زیر غور ہیں۔
کمیٹی نے وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے 2019ء میں جاری کردہ کثیر جہتی غربت انڈیکس (ایم پی آئی) ڈیٹا کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے اگلے اجلاس میں تازہ اور تقابلی ڈیٹا پیش کرنے کی ہدایت کی۔کمیٹی نے وزارت غربت کو فوری طور پر وزارت خزانہ سے رابطہ کرکے بی آئی ایس پی میں درپیش افرادی قوت کی کمی کا حل نکالنے اور بھرتیوں پر عائد پابندی ختم کرانے کی ہدایت کی تاکہ فلاحی اقدامات میں تسلسل قائم رکھا جا سکے۔
اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ قومی سطح پر غربت کے خاتمہ کی پالیسی کا مسودہ تیار ہے جو اس وقت صوبائی حکومتوں سے مشاورت کے مرحلہ میں ہے۔ منظوری کے بعد ایک وفاقی و صوبائی کوآرڈینیشن کونسل تشکیل دی جائے گی۔اجلاس کے دوران پی پی ایف اےکی جانب سے 253 یونین کونسلوں میں 11.7 ارب روپے مالیت کے غیر ملکی امداد سے جاری منصوبوں کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں جن میں لائیو سٹاک، مائیکرو ہائیڈل اور غذائی پروگرام شامل ہیں۔
اس کے علاوہ نیشنل پاورٹی گریجویشن پروگرام کے دائرہ کار میں پانچ نئے اضلاع کی شمولیت اور نئے ڈونرز کی آمد کی بھی نشاندہی کی گئی، اگرچہ اس پروگرام کو تاحال پی ایس ڈی پی سے فنڈنگ فراہم نہیں کی گئی۔یہ اجلاس کمیٹی کے سماجی تحفظ کے نظام کی مضبوط نگرانی، شفافیت اور ادارہ جاتی اصلاحات کے عزم کا مظہر رہا۔اجلاس میں رکن قومی اسمبلی میر غلام علی تالپور، آسیہ اسحاق صدیقی، مہتاب اکبر راشدی، ارشد عبداللہ وہرہ، محمد بشیر خان، مصباح الدین، محمد الیاس چوہدری، میر خان محمد جمالی جبکہ انیقہ مہدی اور شاہد عثمان نے اجلاس میں آن لائن شرکت کی۔
اجلاس میں وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ، وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کے اعلیٰ حکام اور ان کے ماتحت اداروں بی آئی ایس پی، پی پی اے ایف اور ٹی وی او کے نمائندگان بھی شریک ہوئے۔