بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے درمیان قریبی روابط قائم ہیں ، سلامتی کونسل کی رپورٹ میں انکشاف

جمعرات 31 جولائی 2025 11:40

اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 جولائی2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1988 طالبان پابندیوں سے متعلق مانیٹرنگ ٹیم کی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) بشمول اس کی مجید بریگیڈ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان قریبی رابطے قائم ہو چکے ہیں اور یہ دہشت گرد گروہ اب ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں 11 مارچ 2025 کو بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ بی ایل اے نے پہاڑی علاقے میں ٹرین کو دھماکہ خیز مواد اور دیگر اسلحے سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 31 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 21 یرغمالی شامل تھے۔

(جاری ہے)

یہ واقعہ بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی عسکری صلاحیت اور بے رحمی کا مظہر قرار دیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے پاس اس وقت تقریباً 6ہزار مسلح جنگجو موجود ہیں جنہیں افغان طالبان کی "عبوری حکومت" سے لاجسٹک اور آپریشنل مدد حاصل ہے تاہم اس رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ افغان طالبان کے اندر اس تعلق پر اختلافات موجود ہیں ، کچھ حلقے ٹی ٹی پی سے فاصلہ اختیار کرنے کے حق میں ہیں تاکہ علاقائی تعلقات بہتر بنائے جا سکیں۔

رپورٹ میں داعش خراسان (ISIL-K) کو خطے اور دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ گروپ کے پاس لگ بھگ 2ہزار جنگجو ہیں جو نہ صرف افغانستان کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں متحرک ہیں بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں اور روسی قفقاز سے بھی بھرتیاں کر رہے ہیں۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ داعش خراسان نے بچوں کو خودکش حملوں کی تربیت دینا شروع کر دی ہے، جہاں 14 سالہ کم عمر لڑکوں کو تیار کیا جا رہا ہے اور خواتین بھی اب سرحد پار کرنے کی کوششوں میں شامل ہیں، جن میں زیادہ تر جنگجوؤں کی بیویاں ہیں۔

رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں اپریل کے حملے کا بھی ذکر کیا گیا تاہم اس پر کوئی رائے نہیں دی گئی۔ دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے ابتدائی طور پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی مگر بعد میں اس دعوے کو واپس لے لیا۔رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت نے دہشت گرد گروہوں کے لیے نرم رویہ اپنا رکھا ہے جس سے القاعدہ، ٹی ٹی پی اور داعش جیسے گروہ کھلے عام سرگرم ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ علاقائی کشیدگی برقرار رہی تو دہشت گرد گروہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر مزید حملے کر سکتے ہیں۔