اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اگست 2025ء) پانچ اگست 2024 کو طلبہ کی زیرقیادت احتجاج کی کامیابی کی علامت کے طور پر ہزاروں افراد نے ڈھاکہ کے اس محل کی چھت پر جھنڈے لہراتے ہوئے قبضہ کیا۔ اس وقت شیخ حسینہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہو کر بھارت چلی گئی تھیں۔ اب ایک سال بعد بھی 17 کروڑ کی آبادی والا یہ جنوبی ایشیائی ملک سیاسی افراتفری سے دوچار ہے، جبکہ حکام کو امید ہے کہ وسیع و عریض گنابھبن محل مستقبل کے لیے ایک پیغام دے گا۔
محل کی دیواریں اور نعرے
محل کی دیواروں پر شیخ حسینہ کے دورِ حکومت کی مذمت میں لکھے گئے نعرے ابھی تک برقرار ہیں۔ ایک نعرہ ہے ''آزادی‘‘، جبکہ دوسرا کہتا ہے، ''ہمیں انصاف چاہیے۔‘‘
حسینہ کی معزولی کے ایک سال بعد بھی بنگلہ دیش منقسم کیوں؟
شیخ حسینہ کے 15 سالہ دورِ اقتدار میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئیں، جن میں سیاسی مخالفین کی بڑے پیمانے پر غیر قانونی حراست اور ماورائے عدالت قتل بھی شامل ہیں۔
(جاری ہے)
77 سالہ شیخ حسینہ نے ڈھاکہ میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر جاری مقدمے میں عدالت کے حکم کی تعمیل سے انکار کیا ہے۔ وہ اپنے خلاف اس مقدمے کو سراسر سیاسی کارروائی قرار دیتی ہیں۔ تاہم دیواروں پر لکھے گئے دیگر نعروں میں ''آمر اور قاتل حسینہ‘‘ شامل ہیں، جنہیں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جا رہا ہے۔
نوبل انعام یافتہ 85 سالہ محمد یونس، جو 2026 کے اوائل میں انتخابات تک عبوری حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، نے کہا کہ یہ میوزیم ''شیخ حسینہ کی بدعنوانی اور عوام کے غم و غصے کی یادیں محفوظ رکھے گا۔‘‘
’گنابھبن فاشزم اور آمرانہ نظام کی علامت‘
27 سالہ انسانی حقوق کے کارکن اور دستاویزی فوٹوگرافر مشفق الرحمان ان ہزاروں افراد میں شامل تھے، جنہوں نے اس پرتعیش محل پر دھاوا بولا، جہاں ہجوم نے شیخ حسینہ کے بیڈ روم میں رقص کیا، کچن سے کھانا کھایا اور اس جھیل میں تیراکی کی، جہاں وہ مچھلیاں پکڑتی تھیں۔
انہوں نے کہا، ''یہ میوزیم ماضی کے صدمات، تکالیف اور مزاحمت کی علامت بنے گا۔ گنابھبن فاشزم اور آمرانہ نظام کی علامت ہے۔‘‘یہ محل کب تعمیر ہوا؟
یہ عمارت شیخ حسینہ کے والد اور بنگلہ دیش کے پہلے رہنما شیخ مجیب الرحمان نے بنوائی تھی اور شیخ حسینہ نے اپنے 15 سالہ دورِ اقتدار میں اسے اپنی سرکاری رہائش گاہ بنایا۔ اسے میوزیم میں تبدیل کرنے کے ذمہ دار تنظیم وہاب نے بتایا کہ نمائشوں میں احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والوں کے حالات زندگی شامل ہوں گے، ''ان کی زندگیوں کی کہانیاں فلموں اور تصاویر کے ذریعے بیان کی جائیں گی، جبکہ شیخ حسینہ کے دور میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے نام تختیوں پر درج ہوں گے۔
‘‘میوزیم کی تعمیر کا مقصد
وہاب کا مزید کہنا تھا،''اس میوزیم کا گہرا مقصد ماضی پر نظر ڈالنا، بدعنوانی اور ظلم کے طویل دور کو دیکھنا ہے۔ میری رائے میں یہ اس منصوبے کا سب سے اہم پہلو ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ میوزیم میں اینیمیشن اور انٹرایکٹو تنصیبات شامل ہوں گی، ساتھ ہی ان تنگ جیلوں کی دستاویزات ہوں گی، جہاں شیخ حسینہ کے مخالفین کو دم گھٹنے والی حالت میں رکھا گیا تھا۔
وہاب نے بتایا، ''ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان اسے جمہوری خیالات، نئی سوچ اور ایک نیا بنگلہ دیش بنانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کریں۔‘‘سابق وزیر اعظم حسینہ نے بنگلہ دیش کے اداروں کو ’تباہ‘ کر دیا، محمد یونس
یہ عزائم عبوری رہنما محمد یونس کے اس وعدے سے ہم آہنگ ہیں کہ وہ انتخابات سے پہلے جمہوری اداروں کو مضبوط کریں گے، حالانکہ سیاسی جماعتوں کی اقتدار کی رسہ کشی سے یہ کوششیں سست ہو رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے انقلاب کی پہلی سالگرہ سے قبل خبردار کیا کہ ''عبوری حکومت غیر اصلاح شدہ سکیورٹی سیکٹر، بعض اوقات پرتشدد مذہبی شدت پسندوں اور اُن سیاسی گروہوں سے نبرد آزما ہے، جو بنگلہ دیشیوں کے حقوق کے تحفظ سے زیادہ شیخ حسینہ کے حامیوں سے انتقام لینے پر مرکوز ہیں۔‘‘’یہ آمریت کے مجسمے تھے‘
تاہم، جہاں شیخ حسینہ کا محل میوزیم میں تبدیل کیا جا رہا ہے، وہیں ان کے دور کے دیگر واضح نشانات کو مٹایا جا چکا ہے۔
شیخ حسینہ کے والد کئی مجسمے گرائے گئے اور ان دونوں کے پورٹریٹ پھاڑ کر جلا دیے گئے۔ یہاں تک کہ مظاہرین نے شیخ مجیب الرحمان کے گھر کو، جسے شیخ حسینہ نے اپنے والد کے میوزیم میں تبدیل کیا تھا، کھدائی کرنے والی مشینوں سے مسمار کر دیا۔23 سالہ طالب علم محب اللہ، جو اس گھر کو گرانے والوں میں شامل تھے، نے کہا، ''جب آمریت گرتی ہے، اس کا مکہ بھی جاتا ہے۔‘‘ ان کاکہنا ہے کہ ایسی علامتوں کو ہٹانا بنگلہ دیش کے بہتر مستقبل کی طرف بڑھنے کے لیے ضروری تھا۔ انہوں نے کہا،''یہ آمریت کے مجسمے تھے۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ