جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کا تسلسل

DW ڈی ڈبلیو بدھ 6 اگست 2025 19:20

جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کا تسلسل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اگست 2025ء) ابتدائی معاشرہ، انسانی تاریخ کا سب سے طویل ترین دور تھا۔ انسان چھوٹے گروہوں میں شکار کیا کرتے اور جنگلی پھل کھا کر زندگی گزارتے تھے۔ نہ زمین کی ملکیت تھی، نہ کوئی ریاست، نہ طبقات۔

تقریباً 10,000 سال قبل، انسان نے زراعت کرنا شروع کی۔ اس کے نتیجے میں زمین کو آباد کیا گیا، مویشی پالے گئے، اور خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔

تب ہی زرعی دور اور قبائلی نظام وجود میں آیا ہوا ۔ قبائلی نظام ایک ایسا سماجی ڈھانچہ ہے جو شناخت، رسم و رواج، اور خاندانی وفاداری پر قائم ہوتا ہے۔

اس نظام میں معاشرہ خون، نسل اور قبیلے کی بنیاد پر منظم کیا جاتا ہے، جہاں سردار یا خاندان کا کوئی بڑا بزرگ فیصلہ ساز ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں فیصلے کسی تحریری قانون کی بجائے روایات، رواج اور غیرت جیسے غیر تحریری اصولوں کے تحت کیے جاتے ہیں جنہیں جرگہ یا پنچائیت کہا جاتا ہے ـ قبائلی معاشروں میں عورت کی حیثیت ایک فرد کی نہیں، بلکہ قبیلے کی عزت اور ملکیت کے طور پر سمجھی جاتی ہے۔

جسے اکثر صلح، سودے یا انتقام کے لین دین میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ''ونّی‘‘، ''سوارہ‘‘، ''وٹہ سٹہ ‘‘، ''کاروکاری‘‘ جیسے الفاظ یہاں صرف رسمیں نہیں، بلکہ روزمرّہ کا معمول ہے جس میں عورت کا وجود خون کے بدلے کا ہرجانہ سمجھا جاتا ہے۔ قبائلی نظام میں غریب اور کمزور طبقے کا استحصال معمول کی بات ہے۔ ان کے لیے نہ انصاف ہوتا ہے، نہ کوئی آواز۔

نہ وہ سوال اٹھا سکتے ہیں، نہ ان کے دکھوں کا کوئی پرسان حال ہوتا ہے۔

طاقت کا پلڑا ہمیشہ سرداروں اور بااثر خاندانوں کے حق میں جھکا رہتا ہے، جبکہ عام انسان صرف خاموشی اور اطاعت میں پناہ تلاش کرتا ہے۔

زرعی انقلاب اور قبائلی نظام کے بعد انسانی سماج کا ارتقا زمین داری کی طرف ہوا اور یہی وہ موڑ تھا جہاں ابتدائی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔

اسی مرحلے پر ملکیت کا تصور ابھرا۔ زمین جس کے پاس تھی، وہی طاقتور کہلایا۔ زمین کی حفاظت کے لیے جنگجوؤں، اسلحے اور مسلح طاقت کی ضرورت پڑی اور اس پورے نظام کو سنبھالنے والا جاگیردار کہلایا۔ یہ نظام زمین کی ملکیت پر مبنی ہوتا ہے، جس میں جاگیردار بالا دست ہوتا ہے اور کسان یا مزدور اس کی زمین پر محنت کرتے ہیں، مگر ان کی اپنی نہ زمین ہوتی ہے نہ اختیار۔

ان کی حیثیت اکثر غلام یا مزارع جیسی ہوتی ہے، جو صرف محنت کرتے ہیں مگر پھل کسی اور کے حصے میں جاتا ہے۔

جاگیرداری نظام میں عورت کو محض غیرت، عزت اور ناموس کا نشان سمجھا جاتا ہے، جس پر جاگیردار مرد کو اختیار حاصل ہوتا ہے ،.چاہے وہ بیٹی ہو، بہن ہو یا بیوی۔ ''عزت ‘‘ زمین کے ٹکڑے سے وابستہ ہے اور ''غیرت‘‘ عورت کے جسم سے۔

نواب، وڈیرے، یا سردار ان سب کے لیے غیرت کے نام پر قتل ایک جرم نہیں، ایک ''خاندانی تہذیب‘‘ ہے، جسے نہ حکومت روک پاتی ہے نہ عدالت ـ

اکثر اوقات جاگیردار، ریاستی حکمران طبقے سے جڑا ہوتا ہے، یا خود مقامی ریاست کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یوں جاگیرداری نظام میں ایک ریاست کے اندر ریاست جنم لیتی ہے، جہاں قانون، طاقت اور انصاف سب کچھ جاگیردار کی مرضی سے چلتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام ایک معاشی اور سماجی نظام ہے جو سرمائے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس نظام میں دولت اور پیداواری ذرائع ( فیکٹریاں، کاروبار، مشینری وغیرہ) چند افراد یا کارپوریشنوں کی نجی ملکیت ہوتے ہیں اور منافع کا حصول اس کا بنیادی محرک ہوتا ہے۔ یہاں طاقت کا سرچشمہ زمین نہیں بلکہ سرمایہ ہوتا ہے۔ جو جتنا سرمایہ رکھتا ہے، وہ اتنا ہی طاقتور اور بااثر سمجھا جاتا ہے۔

مزدور فیکٹریوں، دفاتر اور اداروں میں کام کرتا ہےـ لیکن وہ بھی اکثر استحصال کا شکار ہوتا ہے، کیونکہ اس کی محنت کا منافع سرمایہ دار کو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں آزادی اور مواقع کی بات تو کی جاتی ہے، مگر درحقیقت یہ نظام بھی عدم مساوات، طبقاتی فرق، غربت اور اجارہ داری کو جنم دیتا ہے۔

برصفیر میں جاگیرداری اور قبائلی نظام کا پس منظر ، تسلسل اور اس کے مظلوم طبقات پر اثرات:

جب ایسٹ انڈیا کمپنی 1600 کے بعد ہندوستان میں داخل ہوئی، اس وقت سلطنتِ مغلیہ اپنی وسعت و شان کے عروج پر تھی، مگر اس کے اندر سے زوال کے آثار نمودار ہو چکے تھے۔

رفتہ رفتہ مغلیہ اقتدار کمزور ہونے لگا، اور سلطنت کے مختلف حصے نیم خودمختار یا مکمل خودمختار حکمرانوں ، نوابوں، راجاؤں یا سلاطین کے زیرِ اثر آ گئے۔ بنگال، حیدرآباد دکن، اودھ میسور اور دیگر ریاستیں مغل تخت سے رسمی وفاداری تو رکھتی تھیں، مگر عملی طور پر اپنے طور پر حکومت کر رہی تھیں۔

جدید دور میں جب قبائلی علاقوں اور اندرونِ ملک کے جاگیردارانہ سوچ رکھنے والے افراد نے بڑے صنعتی شہروں کا رخ کیا، تو وہ صرف اپنا وجود ہی نہیں لائے، بلکہ اپنے ساتھ وہی پرانے، فرسودہ رسم و رواج اور ذہنی رویے بھی لے آئے۔

یہی وجہ ہے کہ آج غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل ہوں یا مدرسوں میں نوعمر بچوں کے ساتھ بدفعلی اور جسمانی تشدد کی لرزہ خیز ویڈیوز ، یہ سب مظاہر صرف دیہی یا پسماندہ علاقوں تک محدود نہیں رہے، بلکہ ملک کے بڑے شہروں میں بھی آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں۔

یہاں ریاست کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ طے کرے کہ کیا ایک ملک میں دو متوازی قوانین چل سکتے ہیں یا پھر قانونِ وقت صرف ریاست کی رٹ کے تابع ہونا چاہیے؟ مسئلہ صرف "ریاست کے اندر ریاست" کا نہیں، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین ہے کیونکہ جہاں قانون کی بالا دستی قائم نہ ہو، وہاں ہمیشہ کمزور اور مظلوم طبقات کا بدترین استحصال ہوتا ہے۔

آج پاکستان میں یہی صورتحال شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ طاقتور طبقے اپنے رسم و رواج اور ذاتی مفادات کو قانون پر ترجیح دے رہے ہیں، اور ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ روش اب محض قابلِ افسوس نہیں، بلکہ خطرناک حد تک تباہ کن ہو چکی ہے۔ لہٰذا اس بگاڑ کو روکنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ ریاست اگر واقعی عوام کی محافظ ہے، تو اسے ہر صورت قانون کی عملداری یقینی بنانا ہوگی۔