ارکان پارلیمنٹ کا بچوں کی صحت کے تحفظ، ماؤں کو بااختیار بنانے اور دودھ پلانے میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کے لئے اہم مشترکہ اعلامیہ پر دستخط

پیر 11 اگست 2025 22:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اگست2025ء) خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری، صوبائی وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے پیر کو بچوں کی صحت کے تحفظ، ماؤں کو بااختیار بنانے اور دودھ پلانے میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کے لئے ایک اہم مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کئے۔یہ اعلامیہ پارلیمنٹرین ایڈووکیسی فورم برائے بچاؤ، تحفظ اور حوصلہ افزائی برائے دودھ پلانے کے موقع پر جاری کیا گیا جو یونیسف اور ویمن پارلیمنٹری کاکس کے اشتراک سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز (پپس) میں منعقد ہوا۔

اس موقع پر حاضرین نے ماں کے دودھ پلانے کو صحت اور ترقی میں قومی سرمایہ کاری قرار دیتے ہوئے اس کی ترویج و تحفظ کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا گیا۔

(جاری ہے)

خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری جو این اے 207 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں، نے اعلامیہ پر دستخط کرتے ہوئے دودھ پلانے اور ماؤں کی غذائیت کو قومی ترجیح دینے کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا۔ اعلامیہ میں ڈبے کے دودھ کی مارکیٹنگ پر قوانین کے سخت نفاذ، صحت کے نظام میں دودھ پلانے کی ترویج، ماؤں کے لیے کام کی جگہوں پر سہولیات کی فراہمی اور نقصان دہ سماجی رویوں کی تبدیلی کے لئے کمیونٹی شمولیت پر زور دیا گیا۔

ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے اپنے خطاب میں کہا کہ ارکان پارلیمنٹ فارمولہ دودھ کو ڈریپ کے دائرہ اختیار سے نکالنے کے عمل کی مزاحمت کریں کیونکہ یہ غذا نہیں بلکہ دوا ہے اور اسے لازمی طور پر دوا کے طور پر ریگولیٹ کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے 2023 میں دودھ پلانے اور بچوں کی غذائیت کا تحفظ و ترویج کا قانون پاس کیا جس پر بڑے پیمانے پر دباؤ آیا لیکن وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے بھی اس قانون کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی کیونکہ جج صاحبان دودھ پلانے کی اہمیت سے واقف ہیں۔ ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو نے اعلان کیا کہ سندھ میں لیکٹیشن کاؤنسلرز اور تھیراپسٹ بھرتی کئے جائیں گے، حاملہ خواتین کو مائیکرونیوٹرینٹ سپلیمنٹس فراہم کئے جائیں گے اور بچوں اور ماؤں کی صحت کے لئے دودھ پلانے کے فروغ کی کوششیں جاری رہیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ غیر متعدی امراض خصوصاً دل کے دوروں اور فالج میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بچپن میں ماں کا دودھ نہ ملنا ہے۔یونیسف کی نمائندہ پرنیلے آئرن سائیڈ نے وفاقی اور صوبائی سطح پر سندھ کے قانون کی طرز پر قوانین بنانے اور دودھ پلانے کو قومی ترجیح بنانے پر زور دیا۔ یونیسف کے نیوٹریشن چیف انتینے گیرما میناس نے کہا کہ پالیسی سطح کے اس فورم میں خاتون اول کی موجودگی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔

سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونٹالوجی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر جمال رضا نے کہا کہ پاکستان کو کم دودھ پلانے کی شرح کے باعث ہر سال تقریباً 2.8 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جبکہ صرف بریسٹ ملک سبسٹیٹیوٹ پر 888 ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں صرف 48.4 فیصد بچے پہلے چھ ماہ مکمل طور پر ماں کا دودھ پیتے ہیں جو عالمی ادارہ صحت کے 2030 کے 60 فیصد ہدف سے کہیں کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مکمل دودھ پلانے کی شرح 70 فیصد ہو جائے تو ہر سال 34 ہزار بچوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں، 28 لاکھ ڈائریا کے کیسز روکے جا سکتے ہیں اور 5 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے طبی اخراجات بچائے جا سکتے ہیں۔ویمن پارلیمنٹری کاکس کی سیکریٹری ڈاکٹر شاہدہ رحمانی نے کہا کہ دودھ پلانا نوزائیدہ اموات کم کرنے اور ماؤں کی صحت بہتر بنانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر مسعود صادق نے زچگی کی چھٹی کم از کم چھ ماہ کرنے، بریسٹ ملک کے متبادل دودھ کی سوشل میڈیا پر تشہیر پر پابندی اور وفاقی سطح پر قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ہسپتالوں میں کینگرو کیئر کے فروغ پر بھی زور دیا۔یونیسف کی جینڈر سپیشلسٹ فہمیدہ خان نے کہا کہ دودھ پلانے کو بچہ بچاؤ کی اہم مداخلت کے طور پر فروغ دینا ضروری ہے۔

یونیسف کے ماہرین صبا شجاع اور ڈاکٹر مظہر حسین نے پاکستان میں غذائی بحران، کم دودھ پلانے کی شرح کے صحت و معیشت پر اثرات اور بریسٹ ملک کے متبادل دودھ کے نقصانات پر تفصیلی پریذنٹیشن دی۔مشترکہ اعلامیہ میں ارکان پارلیمنٹ نے اس امر کا اعادہ کہ وہ دودھ پلانے کے فروغ کے لئے قانون سازی کریں گے، موجودہ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائیں گے، صحت کے نظام میں اس کی ترویج کو شامل کریں گے اور ماں و بچے کی غذائیت کے لئے پائیدار فنڈنگ فراہم کریں گے۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، جے یو آئی ف اور ایم کیو ایم کے ارکان، جن میں اکثریت خواتین کی تھی ، نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بریسٹ ملک کے متبادل دودھ کی جارحانہ مارکیٹنگ کے نقصان دہ اثرات سے بچوں کو بچانے کے لیے پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر جدوجہد کریں گے۔