بھارت مغربی دریا پاکستان کیلیے بلا رکاوٹ بہنے دے، عالمی عدالت

عدالت کا فیصلہ حتمی اورفریقین پرلازم ہیں، اس کیخلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی، رپورٹ

منگل 12 اگست 2025 16:49

بھارت مغربی دریا پاکستان کیلیے بلا رکاوٹ بہنے دے، عالمی عدالت
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اگست2025ء)عالمی مستقل ثالثی عدالت نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مغربی دریائوں کا پانی پاکستان کے بلا روک ٹوک استعمال کیلیے چھوڑ دے۔ پاکستان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت کی پریس ریلیز کے مطابق عدالت نے یہ حتمی فیصلہ(بائنڈنگ ایوارڈ) جاری کیا جو پاکستان کی جانب سے 19 اگست 2016 کو بھارت کے خلاف دائر کردہ ثالثی کے نتیجے میں سامنے آیا، یہ کارروائی سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل IX کے تحت کی گئی تھی۔

فیصلے میں آرٹیکل ( (مغربی دریاوں سے متعلق شق) کے حوالے سے کہا گیا کہ بنیادی اصول یہ ہے کہ بھارت مغربی دریاوں کے پانی کو پاکستان کے بلا رکاوٹ استعمال کیلیے بہنے دے۔

(جاری ہے)

فیصلے میں کہا گیا کہ اس اصول کو مخصوص استثنی حاصل ہے، جن میں پن بجلی پیدا کرنے کی گنجائش بھی شامل ہے، لیکن اس استثنی کی سختی سے تشریح کی جانی چاہیے، رن آف دی ریور ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کے ڈیزائن اور آپریشن کو معاہدے کی شرائط کے مطابق ہونا چاہئے، نہ کہ اس کے مطابق جو بھارت مثالی یا بہترین طریقہ سمجھتا ہو۔

اس حوالے سے فریقین کے حقوق اور ذمہ داریوں میں توازن سے متعلق سوالات کو معاہدے کے نوٹی فکیشن، اعتراض اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار کے ذریعے طے کیا جانا چاہیے تاکہ معاہدے کے مقاصد اور باہمی تعاون کی ذمہ داریوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔عدالت نے کہا کہ اب تک بھارت نے ثالثی کی کارروائی میں حصہ نہیں لیا اور بار بار عدالت کی صلاحیت پر اعتراض کیا، تاہم عدالت نے یہ معاملہ متعدد مواقع پر زیرِ غور لایا ہے۔

ان کارروائیوں کے دوران عدالت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بھارت کو تمام امور سے مکمل طور پر آگاہ رکھا جائے اور اسے شرکت کا موقع دیا جائے۔اس کے باوجود، عدالت نے دستیاب مواد، کمیشن کے ریکارڈ، فریقین کے درمیان خط وکتابت، معاہدے کے تحت ماضی کی تنازعات کے حل کی کارروائیوں میں بھارت کی جمع کردہ آرا سے بھارت کے موقف کو سمجھنے اور مدنظر رکھنے کی کوشش کی۔

عدالت نے مزید کہا کہ اس نے پاکستان کے دعوئوں کی درستگی جانچنے کیلئے اضافی اقدامات کئے، جن میں پاکستان سے مزید تحریری جواب طلب کرنا، سماعت سے پہلے اور دوران سوالات کرنا، پاکستان سے سندھ طاس معاہدے اور مستقل انڈس کمیشن کے حوالے سے تاریخی شواہد پیش کرنے کا مطالبہ اور ایسے عوامی ریکارڈ اور عدالتی فیصلے دیکھنا شامل ہے جو پاکستان نے پیش نہیں کئے تھے۔

عدالت نے کہا یہ فیصلہ معاہدے کی مجموعی تشریح اور اطلاق سے متعلق سوالات کا احاطہ کرتا ہے، جن میں آرٹیکل 3 اور چوتھے ضمیمہ کا آٹھواں پیراگراف (جو مغربی دریاوں پر بھارت کے نئے رن آف دی ریور ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس سے متعلق ہی) بھی شامل ہیں۔پریس ریلیز میں کہا گیا کہ فیصلے میں اس سے متعلق ایک سوال پر بھی بات کی گئی ہے کہ معاہدے کے تحت تنازعات کے حل کے اداروں (یعنی ثالثی عدالتوں اور غیر جانبدار ماہرین) کے فیصلوں کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

عالمی ثالثی عدالت نے 8 اگست کو سنایا گیا فیصلہ اپنی ویب سائٹ پر جاری کردیا جس میں قرار دیا گیا کہ عدالت کا فیصلہ حتمی اور فریقین پر لازم ہیں، اس کیخلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی، غیرجانبدار ماہرین کے فیصلے بھی حتمی اور لازمی ہیں۔ عدالت کشن گنگا اور رتلے پراجیکٹس پر پاکستان کے اعتراضات پر فیصلہ بعدمیں سنائے گی۔عدالت نے مغربی دریاوں پر پانی کے لو لیول آوٹ لیٹس کی تعمیر بھی ممنوع قرار دیدی تاوقتیکہ ان کی اشد ضرورت ہو، ایسی صورت میں یہ حجم میں کم سے کم اور ممکنہ سب سے بلند سطح پر ہونی چاہئے۔

دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نے کہا پاکستان اس فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہے۔ عالمی عدالت کا یہ فیصلہ اس وقت خاص اہمیت رکھتا ہے جب بھارت نے حال ہی میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا، اور اس سے قبل ثالثی عدالت کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا، یہ پاکستان کے تاریخی موقف کی توثیق ہے۔دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیلئے پرعزم ہے، وہ یہ بھی توقع رکھتا ہے کہ بھارت فوری طور پر معاہدے کے معمول کے طریقہ کار کو بحال کریگا اور ثالثی عدالت کے اعلان کردہ فیصلے پر دیانت داری سے عمل کرے گا۔

سابق انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ نے کہا فیصلہ پاکستان کی عظیم فتح ہے۔ پاکستان کو بھارت کے پانی کا ڈیٹا شیئر نہ کرنے کے اقدام کو بھی چیلنج کرنا چاہئے۔ سابق وزیر قانون احمر بلال صوفی نے ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا عالمی عدالت کا فیصلہ پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔اس فیصلے نے عالمی برادری میں پاکستان کی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے۔ عدالت نے بھارت کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ یہ کیس سننے کا اختیار رکھتی ہے۔