او آئی سی سی آئی نے تیسری پی سی سی رپورٹ جاری کردی، پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے فوری موسمیاتی فنانسنگ پرزور

منگل 12 اگست 2025 17:18

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اگست2025ء)پاکستان عالمی سطح پر گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں 0.9فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود2025کے گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث غیر متناسب نقصانات کا سامنا کررہاہے۔ صرف2022میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آفات میں 30ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا جس کی بحالی کیلئے 16.3ارب ڈالر سے زائد کی رقم درکار تھی۔

صرف فضائی آلودگی سالانہ 128,000سے زائد قبل از وقت اموات کا سبب ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے زراعت کی پیداواری صلاحیت میں 10سے 20فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس سے ، تنگی معاش اور معیشت دونوں دبائو کا شکارہیں۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی خطرات کا موئثر مقابلے کیلئے پاکستان کو سالانہ 40سے 50ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

ان ہی چیلنجز کے پیش نظر اوورسیز انوسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری(OICCI)نے ماحولیاتی ریزیلئنس میں پرائیویٹ سیکٹر کی شرکت کیلئے ماحول پیداکرنے کے عنوان سے اپنی تیسری پاکستان کلائمٹ کانفرنس رپورٹ جاری کی ہے۔

اس رپورٹ میںبڑے پیمانے پر ماحولیاتی فنڈنگ کی فوری ضرورت اور نجی شعبے کوریزیلئنس پیداکرنے میں مرکزی شراکت دار قرار دیا گیا ہے۔ اس موقع پر سیکریٹری وزارتِ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن(MoCC&E)عائشہ حمیراچودھری نے کہاکہ پاکستان کو درپیش موسمیاتی خطرات عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقیقت ہے، لیکن موئثرردِّعمل کیلئے ہمیں بروقت اور خاطر خواہ ماحولیاتی فنڈنگ کو مقامی سلوشنز کی طرف منتقل کرنا ہوگا۔

ہماری نیشنل کلائمٹ حکمتِ عملی میں نجی شعبے کاکلیدی کردار ہے اور اوآئی سی سی آئی کے ممبران نے اس میںاہم کردار ادا کیاہے۔ ہم بین الاقوامی شراکت داروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے ماحولیاتی عزم کو بھر پور مالی معاونت فراہم کی جائے۔ ماحولیاتی فنانس کیلئے معاشی دلیل واضح ہے، اگر فوری طورپر کاربن کے اخراج میں کمی نہ کی گئی تو پاکستان کی برآمدات کونئے عالمی تجارتی قوانین خاص طورپر یورپی یونین کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم کے تحت مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

او آئی سی سی آئی کے سیکریٹری جنرل ایم عبدالعلیم نے کہاکہ یورپی یونین کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم جیسے عالمی تجارتی قوانین کی وجہ سے فوسل فیول پر انحصار اور کاربن انٹینسیوپریکٹسز پاکستان کی برآمدات کومشکلات میں ڈال رہی ہیں۔ کاربن کے اخراج میں کمی اور گرین فنانس اب آپشن نہیں ہیں بلکہ معیشت کی پائیداری اور عالمی مسابقت کیلئے ناگزیر ہیں۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری نے باہمی تعاون پر مبنی پالیسی اور فنانسنگ میکانزم کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہاکہ پبلک اور گرانٹ بیسڈ کلائمٹ فنانس کو ختم کرنے کے تناظر میں مارکیٹ پر مبنی سلوشن اور پرائیویٹ سیکٹر مسئلے کاحل نہیں بلکہ اس کے حل کا ایک حصہ ہے۔ موسمیاتی آفات مستقبل کے خطرہ کے بجائے آج کا سماجی و معاشی بحران ہیں۔

پاکستان کو اب وعدوں سے آگے بڑھتے ہوئے ایک ایسا ماحولیاتی نظام بناناچاہیے جہاں ماحولیاتی ریزیلئنس میں نجی سرمایہ کاری کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ مستقل پالیسی ،شفاف ڈیٹااور قابلِ رسائی مالیاتی ٹولز کے ذریعے اسے ممکن بنایاجائے۔ اے سی سی اے کی صدر عائلہ مجید نے موسمیاتی ایکشن میں مہارتوں اور مالیاتی مہارت کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہاکہ موسمیاتی فنانس کا مقصد صرف فنڈز حاصل کرنا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بناناہے کہ اسے شفافیت ، تکنیکی مہارت اور قابل پیمائش موئثر طریقوں کے ساتھ موئثر طورپر استعمال کرنا ہے۔

تیسری پی سی سی رپورٹ میں قابلِ عمل اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جن میں تخلیقی زراعت، صنعتی ڈیکاربونائزیشن، پلاسٹک سرکولیریٹی اور کاربن مارکیٹ کی ترقی شامل ہیں۔رپورٹ میںا س بات پر زوردیاگیا ہے کہ کلائمٹ فنانس کو پالیسی سپورٹ اور استعداد کارمیں اضافے کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے تاکہ پاکستان کے کلائمٹ فنانس خلا کو پوراکیاجاسکے۔ او آئی سی سی آئی پاکستان کے نجی شعبہ کی واحد تنظیم ہے جس نے COP28اورCOP29میںشرکت کی اور موسمیاتی ایکشن کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دے رہی ہے۔ او آئی سی سی آئی گرین ٹیکسانومیز اور ای ایس جی رپورٹنگ فریم کو آگے بڑھانے کیلئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس ای سی پی سمیت ریگولیٹرز کے ساتھ کام کررہی ہے۔