خیبر پختونخوا ایمپلائز ریمول فرام سروسز ایکٹ کے تحت برخاست ہونے والے عملے سے متعلق تمام محکمے ریکارڈ فراہم کریں، آفتاب عالم ایڈووکیٹ

بدھ 13 اگست 2025 19:27

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 اگست2025ء) خیبر پختونخوا کے وزیر برائے قانون، پارلیمانی امور و انسانی حقوق آفتاب عالم ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ تمام محکمے خیبر پختونخوا ایمپلائز ریمول فرام سروسز ایکٹ 2025 کے تحت برخاست ہونے والے عملے کا تفصیلی ریکارڈ پیش کریں اور محکمہ خزانہ اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ شفافیت کے سلسلے میں قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لئے وہ پرعزم ہیں اور جتنا جلدی ہو سکے مذکورہ ایکٹ کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور میں منعقدہ خیبرپختونخواایمپلائز(ریمول فرام سروسز) ایکٹ 2025 کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم تعلیم مینا خان آفریدی، وزیر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ پختون یار، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شاہ فیصل اتمان خیل، سیکرٹری محکمہ قانون اختر سعید ترک، اور محکمہ قانون، خزانہ، اعلیٰ تعلیم و اسٹیبلشمنٹ سمیت متعلقہ محکموں کے حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

مینا خان آفریدی نے اس موقع پر کہاکہ خیبر پختونخوا ایمپلائز ریمول فرام سروسز ایکٹ 2025 کے فوری نفاذ کو 15 دن کے اندر یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس ایکٹ کے نفاذ کے سلسلے میں قانون و ضوابط کی روشنی میں تمام محکموں کے ساتھ یکساں طور پر کارروائی ہوگی اور کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک سے گریز کیا جائے گا۔ صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ جن آسامیوں کی منسوخی پر تحفظات ہیں، انہیں انامولی کمیٹی کے سپرد کیا جائے تاکہ انصاف پر مبنی فیصلہ ہو سکے۔

محکمہ اسٹیبلشمنٹ کے حکام نے اجلاس میں ایکٹ کے عملی نفاذ کے لیے اب تک اٹھائے گئے اقدامات اور اس سے متعلق عدالتی فیصلوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔۔ وزیر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ پختون یار نے کہا کہ یونیورسٹی آف بنوں میں بھرتی عملہ اس ایکٹ سے مبرا ہے، جو غیر قانونی ہے، لہٰذا اس حوالے سے بھی اقدامات اٹھائے جائیں۔اجلاس میں محکمہ اعلیٰ تعلیم نے مختلف جامعات کے کیسز پر پریزنٹیشن پیش کی، جس کے مطابق کئی جامعات نے اپنی بھرتیوں کے جواز، قانونی پہلوؤں، الیکشن کمیشن اجازت نامہ، عدالتی احکامات اور تعلیمی ضروریات کی بنیاد پر عملے کو برقرار رکھنے کی سفارش کی۔

ان میں شامل ادارے انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز، باچا خان یونیورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور، یونیورسٹی آف بنوں، شہداء اے پی ایس ، یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف ہری پور، ویمن یونیورسٹی مردان، فاٹا یونیورسٹی، شہید بینظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی پشاور، شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی دیر اپر، ایگریکلچریونیورسٹی پشاور، یونیورسٹی آف ملاکنڈ، یونیورسٹی آف پشاور، عبد الولی خان یونیورسٹی مردان، یونیورسٹی آف چترال، یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں، یونیورسٹی آف سوات، ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اورPAF-IAST شامل ہیں۔

ان اداروں میں زیادہ تر بھرتیاں ای سی پی این او سی، پہلے سے جاری اشتہارات، عدالتی فیصلوں یا تعلیمی ضروریات کی بنیاد پر کی گئی تھیں، جبکہ کچھ کیسز میں ٹیسٹ و انٹرویوز عبوری حکومت سے قبل مکمل ہوچکے تھے۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم نے ایسی آسامیوں کو برقرار رکھنے کی سفارش کی ہے، جن کی برطرفی سے تعلیمی عمل یا اداروں کی تسلسل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔تاہم یونیورسٹی آف لکی مروت اور یونیورسٹی آف ایگریکلچر ڈی آئی خان کے بعض کانٹریکٹ ملازمین کو مدت ختم ہونے پر ہٹایا جا چکا ہے یا ہٹانے کی سفارش کی گئی ہے۔