پاکستان نے جرمنی منتقلی کے منتظر افغان شہریوں کو حراست میں لے لیا

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 15 اگست 2025 13:00

پاکستان نے جرمنی منتقلی کے منتظر افغان شہریوں کو حراست میں لے لیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) جمعرات کو پاکستانی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ اسلام آباد میں کچھ افغان شہریوں کو حراست میں لیا ہے۔ یہ گرفتاریاں مہاجرین کے خلاف تازہ کریک ڈاؤن کا حصہ ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں جرمنی منتقل ہونا تھا۔

پاکستان کن لوگوں کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے؟

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو جرمن پروگراموں میں رجسٹرڈ ہیں، جیسے سابق مقامی عملہ اور دیگر ایسے لوگ جنہیں 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد خطرے سے دوچار قرار دیا گیا تھا۔

یہ واضح نہیں کہ کتنے ایسے افراد ان گرفتار شدگان میں شامل ہیں۔

افغانستان سے جرمن فوج کے انخلا کے بعد، جرمنی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے مقامی عملے اور دیگر افغان شہریوں کو پناہ دے گا جو طالبان کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے پاکستان فرار ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

ان میں سے تقریباً 2,400 افراد اب پاکستان میں موجود ہیں اور جرمنی جانے کے منتظر ہیں۔ جرمن وزارت داخلہ کے مطابق، ان میں سابق مقامی عملہ اور ان کے خاندان کے تقریباً 350 افراد شامل ہیں۔

جرمنی نے گرفتاریوں پر کیا کہا؟

جب وفاقی جرمن وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ سے پوچھا گیا کہ آیا افغانستان بھیجے گئے افراد کو واپس لایا جا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ جرمن ایجنسی برائے بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ان افراد سے رابطہ ہے اور انہیں مدد فراہم کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر کیس کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا جرمنی پر ان افراد کو لانے کے لیے قانونی ذمہ داری ہے یا نہیں۔

وزارت داخلہ نے گرفتاریوں سے آگاہی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ان گرفتار شدگان کے بارے میں مطلع کر دیا گیا ہے جو جرمن پروگراموں کا حصہ ہیں۔

ڈوبرِنڈٹ نے کہا،’’ہم اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیجنے کا عمل تیز کیا جا رہا ہے۔ اکثریت کے پاس فی الحال جرمنی کے لیے اجازت نامہ موجود نہیں ہے، اور یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا کہ آیا ان افراد کو یہ دستاویز جاری کی جائے گی بھی یا نہیں۔

علاقے کے مقامی افراد نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ کچھ لوگوں کو سرحدی علاقوں اور حتیٰ کہ افغانستان بھی بھیج دیا گیا ہے۔ ایک گیسٹ ہاؤس کے مالک نے ڈی پی اے نیوز ایجنسی کو بتایا، ’’میرے گیسٹ ہاؤس سے ہی سات خاندانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘‘

ایڈووکیسی گروپ ’کابل لفٹ بروکے‘ (کابل ہوائی پل) نے کہا کہ کہ خاندانوں کو الگ اور نابالغ بچوں کو والدین سے جدا کر دیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر، 17 اور 18 سال کی دو بہنوں کو مبینہ طور پر خاندان کے بغیر گرفتار کر کے افغانستان بھیج دیا گیا۔

گروپ نے ایک بیان میں کہا، ’’اسلام آباد میں جرمن سفارت خانہ متاثرہ افراد کی مؤثر حفاظت کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔‘‘

متاثرہ افراد میں ایک ایسا خاندان بھی شامل ہے جس کے حق میں برلن کی انتظامی عدالت پہلے ہی مثبت ہنگامی فیصلہ جاری کر چکی ہے۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے برلن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک افغان صحافی کی رہائی کو یقینی بنائے جسے جرمنی میں داخلے کا وعدہ کیا گیا ہے اور کہا کہ ’’جرمنی کو اب فوراً کارروائی کرنی چاہیے۔‘‘

یہ سب اب کیوں ہو رہا ہے؟

پاکستان نے 2023 کے آخر میں غیر قانونی افغان شہریوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری شروع کی اور اپریل 2024 میں اس پالیسی کو رجسٹرڈ افراد تک بھی بڑھا دیا۔

اسلام آباد کے حکام کا کہنا ہے کہ منصوبہ ہے کہ 30 لاکھ افغان شہریوں کو ملک سے نکالا جائے اور یہ پالیسی طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ضروری ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان خبردار کرتے ہیں کہ واپس بھیجے جانے والوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں، جن میں طالبان کے خلاف سمجھے جانے والے اقدامات پر انتقامی کارروائی کا امکان بھی شامل ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جرمن حکومت پر تنقید

گرین پارٹی کی شاہینہ گمبیر نے ان ملک بدریوں کو ’’ایک اسکینڈل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، '' کئی مہینوں سے وفاقی حکومت ان کی قانونی طور پر تسلیم شدہ حفاظتی ضرورت کو نظر انداز کر رہی ہے۔

‘‘

سوشلسٹ لیفٹ پارٹی کی کلارا بُنگر نے اس صورتحال کو ’’انتہائی غیر انسانی‘‘ قرار دیا اور کہا، ’’اب فوراً کارروائی کی جائے، ویزے جاری کیے جائیں، ملک بدری روکی جائے۔‘‘

کابل لفٹ بروکے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس 15 عدالتی فیصلے ہیں جو متاثرہ افراد کے جرمنی میں داخلے کے حق کی تصدیق کرتے ہیں، لیکن ’’وفاقی حکومت کی اپیلیں اکثر ویزے کے اجرا میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں۔‘‘

انسانی حقوق کے گروپ اور اپوزیشن جماعتیں فوری ویزوں کے اجرا اور پہلے سے ملک بدر کیے گئے افراد کی محفوظ واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔

ادارت: صلاح الدین زین