فیصلو ں میں تاخیرکمزور اور بے سہارا افراد کو نقصان پہنچاتی ہے جو طویل مقدمہ بازی برداشت نہیں کرسکتے.سپریم کورٹ

تاخیر شدید معاشی اور سماجی اثرات مرتب کرتی ہے، یہ سرمایہ کاری کو روکتی ہے، معاہدوں کو بے معنی بنادیتی ہے اور عدلیہ کی ادارہ جاتی ساکھ کو کمزور کرتی ہے .جسٹس منصورعلی شاہ کے ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 16 اگست 2025 14:12

فیصلو ں میں تاخیرکمزور اور بے سہارا افراد کو نقصان پہنچاتی ہے جو طویل ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 اگست ۔2025 )سپریم کورٹ نے عدلیہ میں فیصلوں میں تاخیر پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسی روش عوام کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے، قانون کی حکمرانی کو کمزور بناتی ہے اور خاص طور پر ان کمزور اور بے سہارا افراد کو نقصان پہنچاتی ہے جو طویل مقدمہ بازی برداشت نہیں کرسکتے.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فیصلوں میں تاخیر شدید معاشی اور سماجی اثرات مرتب کرتی ہے، یہ سرمایہ کاری کو روکتی ہے، معاہدوں کو بے معنی بنادیتی ہے اور عدلیہ کی ادارہ جاتی ساکھ کو کمزور کرتی ہے یہ ریمارکس انہوں نے عبدالاسلام خان کی اپیل کی سماعت کے دوران دیئے سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ میں جسٹس عائشہ ملک سنیئرترین جج کے ساتھ کیس کی سماعت کررہی ہیں درخواست گزار نے پشاور ہائی کورٹ کے 3 نومبر 2021 کے اپنے موقف کے خلاف فیصلے کو چیلنج کیا تھا جسٹس منصورعلی شاہ نے تجویز دی کہ ٹریکنگ پروٹوکولز متعارف کرائے جائیں تاکہ غیر فعال مقدمات کی خودکار شناخت ہو سکے اور ساتھ ہی مقدمات کے شیڈول اور ترجیحی ترتیب میں مدد کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ٹولز کا محتاط استعمال کیا جائے تاکہ عدالتی صوابدید کو بھی محفوظ رکھا جائے.

جسٹس منصور علی شاہ نے زور دیا کہ ایسا نظام کم از کم یہ یقینی بنائے کہ مقدمات کو بر وقت اور غیر امتیازی بنیاد پر مقرر کیا جائے، قطار توڑنے اور خصوصی شیڈولنگ کو ختم کیا جائے انفرادی دعوﺅں کے بروقت فیصلوں پر سمجھوتہ کیے بغیر آئینی، معاشی یا قومی اہمیت کے معاملات کو ترجیح دی جائے زیرسماعت مقدمہ ایک غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی کے خلاف چیلنج سے شروع ہواجو ایک بینک نے 26 اپریل 2010 کے مالیاتی ڈگری کے نفاذ میں کی تھی، نیلامی 2011 میں ہوئی، درخواست گزار نے اسی سال اعتراضات دائر کیے جو خارج ہوگئے، پشاور ہائی کورٹ میں اپیل 10 سال زیر التوا رہی اور بالآخر 2021 میں فیصلہ آیا معاملہ 2022 میں سپریم کورٹ تک پہنچا اور اب 2025 میں 3 سال بعد سنا گیا.

عدالت نے قراردیا کہ معاملہ صرف نیلامی کی قانونی حیثیت تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ بھی دیکھنا تھا کہ کیا 14 سال بعد کوئی بامعنی ریلیف دیا جاسکتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر درخواست گزار کا موقف درست بھی ہوتا، وقت کے بہاﺅنے اس کی افادیت کو تقریباً ختم کر دیا تھا اگرچہ سپریم کورٹ نے اپیل مسترد کردی ہے لیکن ریمارکس میں کہا کہ عدالتی نظام کی ساکھ صرف فیصلوں کی منصفانہ نوعیت پر ہی نہیں بلکہ ان کے بروقت ہونے پر بھی قائم ہے، یہ معاملہ محض انتظامی نہیں بلکہ آئینی ہے، کیونکہ آئین کے آرٹیکل 4، 9 اور 10-اے انصاف تک رسائی کا حق فراہم کرتے ہیں.

عدالت نے کہا کہ یہ حق منصفانہ اور بر وقت سماعت پر محیط ہے اور وہ تاخیر جو کسی موثر ریلیف کو بے اثر کردے، دراصل انصاف سے محرومی کے مترادف ہے جسٹس منصور علی شاہ نے زور دیا کہ انصاف کے حقیقی ہونے کے لیے، اسے منصفانہ اور بروقت بھی ہونا چاہیے ملک بھر کی عدالتوں میں اس وقت 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں صرف سپریم کورٹ میں تقریباً 55 ہزار 941 مقدمات شامل ہیں، حالانکہ ججز کی تعداد بڑھا کر 24 کر دی گئی ہے یہ اعداد و شمار محض تجریدی نہیں بلکہ وقت میں معلق تنازعات کی نمائندگی کرتے ہیں.

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ فیصلوں میں تاخیر محض مقدمات کی زیادتی یا نچلی سطح کی نااہلی کا نتیجہ نہیں بلکہ عدالتی حکمرانی کا ایک گہرا اور ساختی چیلنج ہے عدلیہ کو ادارہ جاتی پالیسی اور آئینی ذمہ داری کے طور پر فوری طور پر ایک جدید، فعال اور دانشمندانہ کیس مینجمنٹ فریم ورک کی طرف بڑھنا ہوگا فیصلے میںکہا کیا گیا کہ دنیا بھر کے عدالتی نظاموں نے دکھایا ہے کہ تاخیر کوئی ناقابل حل حقیقت نہیں بلکہ ایک قابل حل ادارہ جاتی مسئلہ ہے سنگاپور، برطانیہ، برازیل، اسٹونیا، کینیڈا، چین، ڈنمارک اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے ٹیکنالوجی، ساختی جدت اور عملی نظم کو ملا کر اصلاحات کی ہیں تاکہ مقدمات کے بوجھ کو کم کیا جا سکے اور کارکردگی بہتر بنائی جا سکے بین الاقوامی تجربات ایک بنیادی حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر ناگزیر نہیں بلکہ ادارہ جاتی ڈیزائن کا نتیجہ ہے اور اسے وژن، منصوبہ بندی اور عزم کے ساتھ درست کیا جا سکتا ہے.

جسٹس منصور علی شاہ نے قراردیا کہ پاکستان کی عدلیہ کو ان عالمی تجربات سے سبق لینا چاہیے اور ایسی تبدیلیوں کے لیے پرعزم ہونا چاہیے جن میں تکنیکی جدت، انتظامی ڈھانچے کی ازسرِ نو تشکیل اور منظم کیس مینجمنٹ شامل ہو تاکہ عدالتیں بروقت، شفاف اور شہری مرکوز انصاف فراہم کرنے کے قابل بن سکیں.