صنفی بنیادوں پر جاری تشدد کے واقعات میں خطرناک اضافہ ، انصاف فراہم کرنے میں ناکامی کا معاملہ مزید غور کے لئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد

پیر 18 اگست 2025 21:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 اگست2025ء) چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے ملک میں صنفی بنیادوں پر جاری تشدد کے واقعات میں خطرناک اضافہ اور اس ضمن میں خواتین کو انصاف کی فراہمی میں ناکامی کا معاملہ مزید غور کے لئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ملک میں قوانین کی کمی نہیں ہے،مجرمان کو سزائیں یقینی بنانے کے لئے فوجداری قوانین میں 108 ترامیم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے پاس زیر غور ہیں، ہمارے سسٹم میں بہت زیادہ قانون سازی ہوئی ہے، اسی لئے ایوان میں اکثر فوجداری بلز کی میں مخالفت کرتا ہوں۔

ایوان بالا میں پیر کو سینیٹر شیری ر حمٰن نے تحریک پیش کی کہ ایوان ملک میں صنفی بنیادوں پر جاری تشدد کے واقعات میں خطرناک اضافہ اور اس ضمن میں خواتین کو انصاف فراہم کرنے میں نظام کی ناکامی کو زیر بحث لایا جائے۔

(جاری ہے)

اس تحریک پر بات کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا کہ ملک میں صنفی بنیادوں پر جاری تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے،ملک میں خواتین کے خلاف 32 ہزار 766 سے زائد صنفی بنیادوں پرتشدد کے کیسز سامنے آئے۔

اس میں گھریلو تشدد،ریپ،غیرت کے نام پر قتل سمیت دیگر کیسز شامل تھے۔حاجی ہدایت اللہ،محسن عزیز،سینیٹر علی ظفر،دنیش کمار،روبینہ خالد،بلال احمد خان نے کہا کہ ملک میں صنفی بنیادوں پر تشدد کے واقعات کے حوالے سے اعداد وشمار بہت زیادہ ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے کہ معاشرے کہاں جارہا ہے۔ملک میں قوانین بہت ہیں تاہم ان پر عملدرآمد کا فقدان ہے۔

یہ معاملہ قانون و انصاف کی کمیٹی کو بھجوایا جائے جو اس پر رولز اور لائحہ عمل بنائے۔دنیش کمار نے کہا کہ پاکستان سے بچیوں کو ملازمت کے جھانسے دیکر بیرون ملک لے جایا جاتا ہے اور ان سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔قبائلی روایات کو بھی اپ ڈیٹ کرنا چاہیے۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ اہم موضوع ہے اس پر سیر حاصل بحث ہوئی ہے۔جو اعدادوشمار دیئے گئے یہ خطرناک ہیں۔

ان کے مستند ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے اسی فلور پر بطور سینیٹر بھی کئی بار کہا کہ ہمارا سسٹم اوور لیجسلیٹو ہے۔میں کئی بار فوجداری بلز کی مخالفت کرتا ہوں کہ اس میں احتیاط اور سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔قوانین کی کمی نہیں ہے۔غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے قوانین ہیں،ایسا فعل کرنے والوں کے والدین عدالت میں پیش ہوجاتے ہیں کہ ہم نے قاتل کو معاف کردیا اور قاتل ان کا بیٹا ہوتا ہے اس پر بھی سر جوڑ کر بیٹھے اور صلاح کی منظوری کے ساتھ ساتھ تعزیر میں عمر قید کی سزا رکھی گئی۔

مدعی والد یا والدہ گواہ بھی گھر کا ہوتا ہے اور گواہ بعد میں اس سے مکر جاتے ہیں اس حوالہ سے شعور کی ضرورت ہے۔یہ طریقہ کار غیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔سزائیں دینا ریاست کا کام ہے۔گھریلو تشدد کے سدباب کے لیے قانون سازی حوالہ سے صوبوں سے اعتراضات آئے تاہم چاروں صوبوں نے یہ قانون بنا لیا وفاق میں یہ قانون سازی ہونی ہے۔انہوں نے بتایا کہ خاندان کے دبائو سے کیس واپس لے لئے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پسند کی شادی پر نوبیاہتا جوڑے کے خلاف زناء اور اغواء برائے زناء کے مقدمات درج کرائے جاتے ہیں۔مختلف عدالتوں میں سینکڑوں ایسے کیس درج ہیں۔انہوں نے کہا کہ اینٹی ریپ بل پر کمیٹی میں کئی روز بیٹھ کر ایک ایک شق پر غور ہوا۔ اس حوالے سے کمیٹی بھی بنادی گئی ہے جس کی سربراہ عائشہ رضا فاروق ہیں۔انہوں نے کہا کہ تفتیش کے نقائص بہت ہیں اس کے سدباب کے لیے قانون سازی ہورہی ہے۔

پولیس کو تفتیش کے تقاضوں کے حوالے سے رہنمائی دی جائے گی۔انہوں نے ان معاملات کے سدباب کے لیے ہمیں یہاں لایا جاتا ہے ہم نے قانون سازی کرنی ہے۔108 فوجداری ترامیم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو دی ہیں تاکہ مجرم سزائوں سے نہ بچ سکیں۔اس بارے میں دونوں اطراف کے ممبران بیٹھ کر اس کا حل تجویز کریں۔چیئرمین نے یہ معاملہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔