پاکستان میں بریسٹ فیڈنگ کی شرح صرف 48 فیصد، آگہی بہت ضروری ہے: ماہرین صح

بدھ 20 اگست 2025 21:01

پاکستان میں بریسٹ فیڈنگ کی شرح صرف 48 فیصد، آگہی بہت ضروری ہے: ماہرین ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 اگست2025ء) یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) میں بدھ کے روز بریسٹ فیڈنگ (رضاعت) کے حوالے سے خصوصی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرینِ صحت نے عوامی آگاہی پر زور دیا۔ سیمینار یونیسف پاکستان کے اشتراک سے منعقد ہوا جس میں فیکلٹی اور طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر ساجد مقبول (ماہر امراضِ بچگان) نے اپنے خطاب میں کہا کہ ماں اور بچے کو ایک ہی یونٹ سمجھنا چاہیے کیونکہ ماں کی صحت براہِ راست بچے کی صحت سے جڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں اور اس کی تیاری حمل سے پہلے ہونی چاہیے۔ بچے کو پیدائش کے ایک گھنٹے بعد صرف ماں کا دودھ پلانا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ ماہ تک صرف دودھ اور دو سال تک دودھ کے ساتھ ٹھوس غذا دینا بچے کی نشوونما کے لیے بنیادی شرط ہے۔

(جاری ہے)

یونیسف کی ماہر غذائیت نجمہ ایوب نے کہا کہ ماں کا دودھ بچے کا ترجیحی حق ہے اور اگست میں بریسٹ فیڈنگ سے آگاہی کا عالمی ہفتہ منایا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں بریسٹ فیڈنگ کی شرح میں تشویشناک کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فارمولا دودھ کوئی خیر خواہی نہیں بلکہ محض مارکیٹنگ چال ہے۔ انہوں نے رضاعت کے حوالے سے مؤثر قانون سازی اور کام کی جگہوں پر ماؤں کے لیے سہولتیں فراہم کرنے پر زور دیا۔ پروفیسر خواجہ احمد عرفان وحید نے کہا کہ دنیا بھر میں ہر سال آٹھ لاکھ بچے بریسٹ فیڈنگ کی وجہ سے موت کا شکار ہونے سے بچتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بریسٹ فیڈنگ کی شرح صرف 48 فیصد ہے جسے 100 فیصد ہونا چاہئے۔ ان کے مطابق بریسٹ فیڈنگ نہ صرف بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں مدد دیتی ہے بلکہ ماؤں میں چھاتی کے سرطان کے خطرات بھی کم کرتی ہے۔ رضاعت پانچ سال سے کم بچوں میں شرع اموات کو 13 فیصد کم کرتی ہے۔ پروفیسر خواجہ احمد عرفان نے مزید کہا کہ بریسٹ فیڈنگ والے بچوں کا آئی کیو دوسرے بچوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

اس سے ماں میں چھاتی اور بیضہ دانی کے سرطان کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر بریسٹ فیڈنگ سے صحت کے شعبے میں 302 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ بریسٹ فیڈنگ کی راہ میں نانی دادیاں ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمزوری گھر کے اندر سے آتی ہے، سارا الزام فارمولا دودھ کو دینا درست نہیں۔ قرآن میں لکھ دیا گیا ہے کہ دو سال تک بچے کو ماں کا دودھ پلانا ہے، خلاف ورزی کی گنجائش نہیں۔

رضاعت کی پالیسی موجود ہے، عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ پروفیسر خواجہ احمد عرفان نے بتایا کہ فارمولا دودھ گھریلو بجٹ پر 15 سے 30 فیصد اضافی بوجھ ڈال دیتا ہے۔ پروفیسر روبینہ سہیل نے کہا کہ بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ انفیکشن ہے۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات 39 فی ہزار لائیو برتھ ہے جو پچھلے بیس برس سے کم نہیں ہو رہی۔ انھوں نے بتایا کہ شہری علاقوں میں صرف 15 فیصد بچے نارمل پیدا ہوتے ہیں۔

جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صفر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیدائش کے فوراً بعد ماں کا دودھ ’’گولڈن ڈراپ‘‘ اور قدرت کی پہلی ویکسین ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس ظاہر کیا کہ میڈیکل اور نرسنگ کے طلبہ کو دوران تعلیم بریسٹ فیڈنگ سے متعلق مناسب تربیت فراہم نہیں کی جارہی۔ سیمینار میں پروفیسر ڈاکٹر سدرہ سلیم، پروفیسر ڈاکٹر آصف نوید، ڈاکٹر مدحت سلمان اور ڈاکٹر عظمیٰ جبین نے بھی شرکت کی۔