قومی کمیشن برائے حقوق اطفالنے کوئٹہ میں صوبائی سطح پر اپنی رپورٹ برائے سال 2024 کا اجرا کر دیا

ملک میں 5 سے 16 برس کے تقریباً 26 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، اور جو اسکول جاتے ہیں ان میں بھی بڑی تعداد کے بچے بنیادی مطالعہ اور ریاضی کی صلاحیتوں سے محروم ہیں،: قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال

جمعرات 21 اگست 2025 23:10

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اگست2025ء) قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال (NCRC) نے کوئٹہ میں صوبائی سطح پر اپنی رپورٹ برائے سال 2024 کا باقاعدہ اجرا کر دیا جسکا موضوع The Situation Analysis on Children from Minority Religions in Pakistan تھا۔ تقریب میں صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی اور صوبائی مشیر برائے اقلیتی آمور سنجے کمار مہمانِ خصوصی تھے۔

تقریب رونمائی میں حکومت بلوچستان کے حکام ، پولیس ، وکلاء برادری ، اقلیتی برادری کے رہنماؤں ، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UNICEF اورمختلف مکاتبِ فکر کے نمائندوں، سماجی شخصیات، اور عام شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر کمیشن کے رکن ایڈوکیٹ عبدالحئی اور صوبائی ٹیم کی کارکردگی کو بھی سراہا گیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کو درپیش مسائل میں سب سے زیادہ چیلنجز اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو لاحق ہیں۔

(جاری ہے)

ان مسائل میں تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں، کم عمری کی شادی، بچوں سے مزدوری، غذائی قلت، اور سماجی تفریق شامل ہیں۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اقلیتوں کے بچوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور انہیں مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے ریاستی اور سماجی سطح پر فوری اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔اس موقع پر مشیر پارلیمانی امور مسٹر سنجے کمار نے بھی خطاب کیا اور اقلیتی امور سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کا اجرائ ایک بہترین اور بروقت قدم ہے کیونکہ یہ نہ صرف اقلیتوں کے بچوں کو درپیش حقیقی مسائل کو اجاگر کرتا ہے بلکہ حکومت اور اداروں کے لیے آئندہ کی سمت بھی متعین کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک اقلیتوں کے بچوں کو تعلیم، صحت اور تحفظ میں مساوی مواقع نہیں ملیں گے اٴْس وقت تک پاکستان اپنی اصل ترقی کی منزل حاصل نہیں کر سکے گا۔

تقریب میں قومی کمیشن کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونے والی ‘‘پاکستان میں بچوں کی حالت 2024’’ رپورٹ کے اہم نکات بھی پیش کیے گئے حکام نے بتایا کہ یہ رپورٹ پہلی مرتبہ قومی سطح پر بچوں کے حالات کا ایک جامع تجزیہ فراہم کرتی ہے جو NCRC ایکٹ 2017 کے تحت مرتب کی گئی ہے اور اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے حقوقِ اطفال (UNCRC) کے چار ستونوں یعنی بقا، ترقی، تحفظ اور شمولیت پر مبنی ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں 5 سے 16 برس کے تقریباً 26 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، اور جو اسکول جاتے ہیں ان میں بھی بڑی تعداد کے بچے بنیادی مطالعہ اور ریاضی کی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔ بچوں میں غذائی قلت ایک بڑا مسئلہ ہے جبکہ بچوں سے مزدوری اور کم عمری کی شادی بدستور ملک میں رائج ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان مسائل کا سب سے زیادہ شکار اقلیتی برادریوں اور معذور بچوں کو ہونا پڑتا ہے جنہیں تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات میں مسلسل محرومی کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نئے خطرات تیزی سے جنم لے رہے ہیں جن میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، آن لائن بچوں کی حفاظت کے مسائل اور کمزور طبقات کے لیے پالیسی سطح پر غفلت شامل ہیں۔ تاہم، مثبت پیش رفت کے طور پر رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ بچوں کی ویکسینیشن، قانونی اصلاحات اور آن لائن سیفٹی کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے رکن ایڈوکیٹ عبدالحئی بنگلزئی نے چیئرپرسن NCRC محترمہ عائشہ رضا فاروق اور کمیشن کی مجموعی کارکردگی سے متعلق بتایا کہ کمیشن کا مقصد پاکستان میں ہر بچے کے حقوق کا تحفظ ہے لیکن اس عمل میں سب سے زیادہ توجہ ان بچوں پر دی جا رہی ہے جو سب سے زیادہ کمزور اور نظر انداز ہیں، جن میں اقلیتوں کے بچے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ وہ اپنے کمسن شہریوں کی پرورش اور حفاظت کس طرح کرتا ہے۔صوبائی وزیر تعلیم محترمہ راحیلہ حمید خان درانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت بلوچستان قومی کمیشن کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو مساوی مواقع اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں بچوں کے حقوق کا تحفظ ایک بڑی ترجیح ہے اور اس مقصد کے لیے صوبائی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔تقریب میں شریک سماجی و اقلیتی برادری کے رہنماؤں نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ NCRC کے ساتھ مل کر بچوں کے حقوق کی پاسداری اور ان کے مسائل کے حل کے لیے کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام اقلیتی برادری کے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی سمت ایک اہم قدم ہے۔