پاکستان ہر سال 110 ارب روپے سے زائد مالیت کی دالیں آسڑیلیا، افریقہ و دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے‘ ڈاکٹر اشتیاق حسن

ہفتہ 23 اگست 2025 20:56

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اگست2025ء) ڈائریکٹر جنرل اڈاپٹو ریسرچ (فارم اینڈ ٹریننگ) پنجاب، ڈاکٹر اشتیاق حسن نے کہا ہے کہ پاکستان ہر سال 110 ارب روپے سے زائد مالیت کی دالیں آسڑیلیا، افریقہ و دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ پاکستان کے مشکل معاشی حالات میں دالوں کی درآمد پر خرچ ہونے والے قیمتی زرمبادلہ کی بچت کیلئے دالوں کے زیرِ کاشت رقبہ اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد اور ایرڈزون ریسرچ انسٹیٹیوٹ، بھکر کے شعبہ دالوں کے زرعی سائنسدانوں کی کاوشوں سے دالوں کی فی ایکڑ زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل نئی اقسام کی کاشت کے فروغ سیچنا اور مسور کی ملکی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔

(جاری ہے)

آن لائن کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے چنا اور مسور کے پیداواری منصوبہ 26 - 2025 کے اجلاس کی صدارت کرتے ھوئے کیا۔

اجلاس میں چیف سائنٹسٹ، شعبہ دالیں، فیصل آباد ڈاکٹر خالد حسین، ڈائریکٹر سوشل سائنسز ریسرچ انسٹیٹیوٹ،پی اے آر سی،فیصل آباد ڈاکٹر ارشد بشیر،ڈاکٹر ماریہ اسلم، ماریہ غفار نمائندہ نایاب،فیصل آباد،سینئر سائنٹسٹ ایرڈزون ریسرچ انسٹیٹیوٹ،بھکر،نیاز حسین،پرنسپل سائنٹسٹ،سائل بیکٹیریالوجی، آری، فیصل آباد، ڈاکٹر عابد نیاز، ریسرچ آفیسر اڈاپٹو ریسرچ ڈائریکٹوریٹ لاھور جاوید اقبال، ڈائریکٹر کراپ رپورٹنگ سروسز،فیصل آباد اعجاز احمد،پرنسپل سائنٹسٹ،محمد عامر آمین،ضیا چشتی،ڈاکٹر عمران ندیم،سینئر سائنٹسٹ،علی عزیز،ڈاکٹر محمد عمر شہباز،ڈاکٹر علی زوہیب،ڈاکٹر فائزہ تبسم،ڈاکٹر صائمہ عارف،ڈاکٹر آصیہ ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت پیسٹ وارننگ،فیصل آباد ڈاکٹر حافظ عبدالحسیب اور ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت انفارمیشن فیصل آبادمحمد اسحاق لاشاری نے شرکت کی۔

ڈاکٹر خالد حسین نے پروگرام میں بتایا کہ چنا اور مسور ہماری روزمرہ خوراک کا ایک اہم جزو ہیں اور غذائی اعتبار سے ان دالوں کی اہمیت انتہائی مسلمہ ہے۔ دالوں میں 20 فیصد سے زائد پروٹین ہوتی ہے اور ان میں آئرن کے علاوہ غذائی ریشہ بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر ان کو گوشت کا سستا نعم البدل کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ضیاء چشتی نے بتایا کہ پھلی دار اجناس ہونے کی وجہ سے دالوں کے پودوں کی جڑوں میں مفید بیکٹیریا بکثرت پائے جاتے ہیں۔

دالوں کی جڑوں پر نوڈیولز بنتے ہیں جن میں موجود نائٹروجن فکسنگ بیکٹیریا فضاء سے نائٹروجن کو فکس کر کے پودوں کی جڑوں کو مہیا کرتے ہیں۔ دالوں کی کٹائی کے بعد جڑیں گلنے سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہو جاتا ہے لہذا دالوں کی کاشت سے زمین کی زرخیزی کو بحال رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر ارشد بشیر نے اس موقع پر شرکاء کو دالوں کی اہمیت، کاشت کے فروغ اور ان کی بہتر دیکھ بھال کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے متعلق بتایا کہ شعبہ دالوں کے زرعی سائنسدانوں نے مسور اور چنا دالوں کی فی ایکڑ زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل متعدد نئی اقسام متعارف کروائی ہیں۔

حکومت پاکستان دالوں کی پیداوار میں اضافہ کے لئے چکوال اورا ٹک کے علاوہ بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں دالوں کی کاشت کے فروغ کے منصوبہ کے لئے بھاری رقم مختص کی ہے۔ نیاز حسین نے اس موقع پر بتایا کہ ایرڈزون ریسرچ انسٹیٹیوٹ، بھکر نے دیسی اور قابلی چنا کی فی ایکڑ زیادپیداوار کی حامل نئی اقسام کے پری بیسک بیج پنجاب سیڈ کارپوریشن، پرائیویٹ سیکٹر کی سیڈ کمپنیوں کے علاوہ ترقی پسند کاشتکاروں کو فراہم کئے ہیں۔

پنجاب کے آبپاش علاقوں میں ان اقسام کے معیاری بیجوں کو زیر کاشت لا کر چنا اور مسور کی فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن یے۔ شعبہ دالوں کے زرعی سائنسدانوں نے بتایا کہ دالیں کماد کی بہاریہ کاشت اور مونڈھی فصل میں مخلوط طور پر بھی کاشت کی جا سکتی ہیں۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں آبپاش علاقہ جات میں وٹوں پر دالوں کی کاشت سے کاشتکار بھرپور پیداوار کے حصول سے بھرپور منافع کما سکتے ہیں۔

دالوں کی فصل سے جڑی بوٹیوں کی بروقت تلفی سے پیداوارمیں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ زرعی سائنسدانوں نے مزید بتایا کہ دالوں کی بہاریہ فصل پر کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ کم ہوتا ھے۔ اجلاس میں دالوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے لئے پیداواری منصوبہ میں کاشت سے لیکر برداشت تک کے عوامل جن میں ترقی دادہ اقسام اور ان کا وقت کاشت، موزوں آب و ھوا، شرح بیج، زمین کی تیاری، طریقہ کاشت،کھادوں اور پانی کے استعمال، چھدرائی، گوڈی سے جڑی بوٹیوں کی تلفی، ضرر رساں کیڑوں اور بیماریوں کے بروقت کنٹرول کے حوالہ سے زرعی سائنسدانوں کی دالوں پر کی جانے والی جدید تحقیق کے نتائج کی روشنی میں ضروری ترامیم شامل کرنے کے بعد اس کی اشاعت کی منظوری دی۔