سپریم کورٹ نے بیٹی سے مبینہ ریپ کے ملزم کو شواہد میں تضاد پر بری کردیا

جمعرات 28 اگست 2025 18:41

سپریم کورٹ نے بیٹی سے مبینہ ریپ کے ملزم کو شواہد میں تضاد پر بری کردیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 اگست2025ء)سپریم کورٹ نے اپنی بیٹی سے مبینہ زیادتی کے الزام میں 12 برس سے قید شخص کو بری کردیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق26 اگست کے عدالتی حکم نامے میں جسٹس علی باقر نجفی نے لکھا کہ استغاثہ کے شواہد ناقابلِ اعتماد پائے گئے۔حکم نامے میں کہا گیا کہ اپیل کنندہ کی سزا اور جرم ثابت ہونا کالعدم قرار دی جاتا ہے، اگر وہ کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہیں تو اٴْسے فوری طور پر رہا کیا جائے۔

2010 میں ملزم کی کم عمر بیٹی نے اپنی ماں اور ماموں کو بتایا تھا کہ’اس کے والد نے اٴْس کے ساتھ ریپ کیا ہے۔حکم نامے کے مطابق 2 اکتوبر 2010 کو متاثرہ بچی، جو اس وقت 6 یا7 برس کی تھی، روتی ہوئی اپنی ماں کے پاس گئی اور انکشاف کیا کہ اس کے والد نے اس کے ساتھ ’فعل بد‘ کیا ہے جس کے بعد اسے شدید تکلیف محسوس ہوئی۔

(جاری ہے)

اس کے بعد والد کو گرفتار کر لیا گیا اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 376(1) کے تحت عمر قید اور 35 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، 2013 میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہ سزا برقرار رکھی۔

ملزم نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کی سماعت تین رکنی بینچ نے کی۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ماں کے مطابق بیٹی کے ساتھ ’دوپہر 2 بجے زیادتی کی گئی‘ لیکن متاثرہ بچی کے بیان سے اس کی ساکھ پر شکوک پیدا ہوتے ہیں اور اس کے لیے مضبوط تائیدی شواہد درکار ہیں۔حکم نامے میں کہا گیا کہ شکایت کنندہ (ماں) کے مطابق بچی کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں اٴْس کا معائنہ اٴْس کی موجودگی میں کیا گیا، تاہم ڈاکٹر کی رائے متضاد تھی کیونکہ اپنے بیانِ حلفی میں تو اٴْس نے کہا کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن جرح کے دوران اس نے واضح طور پر کہا کہ کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی۔

جسٹس نجفی نے کہا کہ اس سے عدالت کے سامنے متاثرہ بچی کے بیان کی ساکھ اور ملزم کے غلط طور پر ملوث کیے جانے کے امکان پر سنگین سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں، ایسے سنگین الزامات کیوں عائد کیے گئے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ریکارڈ میں آیا ہے کہ شکایت کنندہ اور ملزم کے درمیان تنازع موجود تھا۔جج نے نوٹ کیا کہ ٹرائل کورٹ نے متاثرہ بچی کا بیان ریکارڈ کرنے سے پہلے ’عقلی جانچ‘ نہیں لی، اٴْن کے مطابق ’بچہ اسی وقت قابلِ قبول گواہ ہوتا ہے جب وہ اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہو کہ بیان میں حقائق کو درست طور پر بیان کر سکے۔

عدالتی حکم کے مطابق اگر عدالت سوال و جواب کی بنیاد پر بچے کی ذہنی پختگی کا مشاہدہ درج کرتی تو بیان زیادہ معتبر ہو سکتا تھا، متاثرہ بچی کا بیان مضبوط تائیدی شواہد کا متقاضی ہے۔