Live Updates

خیبرپختونخوا میں سیلاب نے وسیع زرعی زمین تباہ کر دی ‘3 ہزار 233 ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا ہے .اقوام متحدہ

متاثرہ 10 اضلاع میں تقریبا 6 ہزار 206 مویشی ہلاک ہوئے، مقامی آبادی کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی محدود ہوگئی ہے.عالمی ادارے کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 4 ستمبر 2025 13:20

خیبرپختونخوا میں سیلاب نے وسیع زرعی زمین تباہ کر دی ‘3 ہزار 233 ایکڑ ..
نیویارک /اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 ستمبر ۔2025 )اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور (یو این او سی ایچ اے) نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں جاری سیلاب نے وسیع زرعی زمین تباہ کر دی ہے ،اب تک 3 ہزار 233 ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا ہے عالمی ادارے نے اپنی ریپڈ نیڈز اسیسمنٹ رپورٹ میں کہا ہے کہ سب سے زیادہ نقصان ضلع بونیر میں ہوا جہاں ایک ہزار 157ایکڑ زمین متاثر ہوئی، اس کے بعد سوات میں 853 ایکڑ، شانگلہ میں 559 ایکڑ اور صوابی میں 330 ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی، مجموعی طور پر 80 فیصد سے زیادہ لوگوں نے اپنی فصلوں کے ضائع ہونے کی اطلاع دی، جن میں بٹگرام اور مانسہرہ میں نقصان زیادہ جبکہ لوئر دیر اور تورغر میں نسبتا کم مگر قابل ذکر رہا، جس نے غذائی تحفظ اور روزگار کو مزید خطرے میں ڈال دیا.

متاثرہ 10 اضلاع میں تقریبا 6 ہزار 206 مویشی ہلاک ہوئے، بونیر میں سب سے زیادہ 4 ہزار 818 جانور ہلاک ہوئے، اس کے بعد سوات میں 618، شانگلہ میں 295، بٹگرام میں 219 اور صوابی میں 105 جانور ہلاک ہوئے، باجوڑ، مانسہرہ، تورغر اور اپر دیر میں بھی مویشیوں کا نقصان ریکارڈ کیا گیا جبکہ لوئر دیر میں اس کا اثر کم رہا، فصلوں کی تباہی اور بے گھری کے بعد مویشیوں کے ضائع ہونے سے دیہی خاندانوں کی معیشت مزید کمزور ہوگئی.

دوسری جانب رپورٹ میں بتایا گیا کہ بیشتر متاثرہ علاقوں میں منڈیوں تک رسائی نسبتا مستحکم رہی، مجموعی طور پر 77 فیصد مارکیٹیں قابلِ رسائی رہیں، جن میں باجوڑ، بٹگرام، لوئر دیر، تورغر اور اپر دیر میں مکمل رسائی موجود تھی، سوات اور مانسہرہ میں بھی بہتر رسائی ریکارڈ کی گئی، حالانکہ یہ علاقے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھے، تاہم بونیر میں صرف 35 فیصد مارکیٹوں تک رسائی ممکن رہی، جس سے مقامی آبادی کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی محدود ہوگئی اگرچہ مارکیٹوں تک پہنچنا ممکن رہا لیکن اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروری سامان کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ رہا 55 فیصد متاثرہ علاقوں میں ضروری اجناس کی باقاعدہ سپلائی میں خلل پیدا ہوا، جن میں صوابی، شانگلہ اور سوات سب سے زیادہ متاثر ہوئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مارکیٹ تک تو پہنچ سکتے ہیں لیکن اکثر اوقات انہیں مطلوبہ سامان یا تو دستیاب نہیں ہوتا یا غیر مستقل انداز میں ملتا ہے، جس سے خوراک اور بنیادی ضروریات متاثر ہوتی ہیں.

خیبرپختونخوا حکومت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں کی کوششوں کے باوجود رپورٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ متاثرہ لوگوں کو اب بھی کئی شعبوں میں شدید کمی کا سامنا ہے غذائی امداد سب سے زیادہ گھروں تک پہنچی، جو کہ مجموعی طور پر 42 فیصد ہے، بونیر، صوابی اور شانگلہ میں امداد نسبتا بہتر رہی، لیکن بٹگرام، لوئر دیر، تورغر اور اپر دیر میں بہت کم یا بالکل بھی غذائی امداد نہیں پہنچی صحت کے شعبے میں 39 فیصد متاثرہ آبادی تک سہولتیں پہنچیں، بونیر میں 82 فیصد، صوابی میں 50 فیصد اور شانگلہ میں 22 فیصد لوگوں نے صحت کی سہولت حاصل ہونے کی اطلاع دی لیکن تورغر اور اپر دیر میں کوئی طبی امداد نہیں ملی.

رہائش کے حوالے سے صرف 20 فیصد گھروں کو امداد ملی، صوابی میں 50 فیصد اور بونیر میں 31 فیصد میں یہ سہولت زیادہ لوگوں تک پہنچی، لیکن دیگر اضلاع میں مکانات کو وسیع نقصان کے باوجود امداد نہ ہونے کے برابر رہی غذائیت کی سہولتیں صرف 15 فیصد متاثرین تک پہنچ سکیں، جو زیادہ تر بونیر 48 فیصد میں مرکوز تھیں، باقی اضلاع میں تقریبا کوئی سہولت نہیں ملی، جس سے بچے اور حاملہ خواتین خطرے میں ہیں.

تعلیم کا شعبہ سب سے کمزور رہا جہاں صرف 2 فیصد کوریج رپورٹ ہوئی، حالانکہ بونیر، سوات اور شانگلہ میں اسکولوں کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے ہزاروں بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی مجموعی طور پر رپورٹ اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ اگرچہ خوراک اور صحت کے شعبوں میں کچھ کام ہوا ہے، لیکن رہائش، غذائیت اور تعلیم شدید حد تک نظرانداز ہیں اور ان میں اہدافی اور پائیدار اقدامات کی فوری ضرورت ہے تاکہ متاثرہ اضلاع میں امدادی خلا کو پر کیا جا سکے. 
Live سیلاب کی تباہ کاریاں سے متعلق تازہ ترین معلومات