پاکستان: لاکھوں افراد کا حساس ڈیٹا لیک اور تحقیقات کا حکم

DW ڈی ڈبلیو پیر 8 ستمبر 2025 13:40

پاکستان: لاکھوں افراد کا حساس ڈیٹا لیک اور تحقیقات کا حکم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 ستمبر 2025ء) پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق فروخت کے لیے دستیاب ڈیٹا میں موبائل سم مالکان کے پتے، کال ریکارڈز، قومی شناختی کارڈ کی نقول اور بیرون ملک سفر کی تفصیلات شامل ہیں۔ یہ ریکارڈ وفاقی وزراء سے لے کر پی ٹی اے کے ترجمانوں تک اور مختلف سرکاری اداروں کے اہلکاروں تک پھیلا ہوا ہے۔

بعض حلقوں نے الزام لگایا کہ انہوں نے گزشتہ سال ہی اس حوالے سے حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی، تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی(این سی سی آئی اے) سمیت متعلقہ اداروں نے توجہ نہیں دی۔

رپورٹ کے مطابق درجنوں ویب سائٹس کم قیمت پر حساس ڈیٹا بیچ رہی ہیں۔

(جاری ہے)

موبائل لوکیشن کی معلومات 500 روپے میں، موبائل ڈیٹا ریکارڈ 2 ہزار روپے میں اور بیرون ملک سفر کی تفصیلات 5 ہزار روپے میں فروخت کی جا رہی تھیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق تمام سم ہولڈرز کا ڈیٹا بشمول وزیر داخلہ نقوی کا بھی گوگل پر فروخت ہوا۔

انٹیلی جنس ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ بدنیتی رکھنے والے عناصر ایسے ڈیٹا کا استعمال کر کے معمولی قیمت پر لوگوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

تحقیقات کا حکم

موبائل فون سم کارڈز کے ڈیٹا لیک ہونے کی خبریں سامنے آنے کے بعد اتوار کو وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی، جو دو ہفتوں کے اندر اس پورے معاملے کا جائزہ لے گی۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق وزیر داخلہ کی ہدایات پر این اے سی آئی اے نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے جو 14 دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ٹیم حالات کا مکمل جائزہ لے گی اور ڈیٹا لیک میں ملوث افراد کی نشاندہی کر کے انہیں قانونی کارروائی کے ذریعے انصاف تک پہنچایا جائے گا۔,

پہلے ہی وارننگ جاری کی گئی تھی

کچھ ماہ قبل پاکستان کی نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (پی کے سی ای آر ٹی) نے ایک وارننگ جاری کی تھی کہ پاکستان کے 18 کروڑ سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین کے لاگ ان کریڈینشلز اور پاس ورڈز عالمی ڈیٹا لیک میں چوری ہو گئے ہیں اور لوگوں سے فوری حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔

پی کے سی ای آر ٹی کی رپورٹس کے مطابق اس لیک میں صارف کے نام، پاس ورڈز، ای میلز اور متعلقہ یو آر ایلز ظاہر ہو گئے جو بڑے سوشل میڈیا سروسز کے ساتھ ساتھ حکومتی پورٹلز، بینکنگ اداروں اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے پلیٹ فارمز سے بھی جڑے ہوئے تھے۔

پی کے سی ای آر ٹی نے ڈیٹا لیک کے ممکنہ اثرات کو بیان کرتے ہوئے خبردار کیا کہ چوری شدہ کریڈینشلز کا استعمال اکاؤنٹ ہائی جیکنگ، شناخت کی چوری اور حکومتی پورٹلز یا دیگر حساس سائٹس تک غیر مجاز رسائی کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عوام اپنے پاس ورڈز سال میں ایک بار لازمی تبدیل کریں اور معتبر آن لائن سروس کے ذریعے ممکنہ ڈیٹا لیک کی جانچ کریں۔

ادارت: صلاح الدین زین