اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 ستمبر 2025ء) ایران اور اقوام متحدہکے جوہری نگران ادارے نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس میں ایران کی جوہری تنصیبات کے معائنے کو دوبارہ شروع کرنے کے طریقوں سمیت تعاون کی بحالی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
قاہرہ میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد اس کا اعلان کیا گیا۔
اس ملاقات کی ثالثی مصر کے وزیر خارجہ بدر احمد محمد عبد العاطی نے کی۔
ہمیں معاہدے کے بارے میں مزید کیا معلوم ہے؟
معاہدے پر دستخط کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں گروسی نے اس نئے معاہدے کو "صحیح سمت میں ایک قدم" قرار دیا۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ تکنیکی نوعیت کا ہے، جس میں "ناگزیر" معائنہ کے عمل کو اجاگر کیا گیا ہے جسے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت ایران میں دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
البتہ معاہدے کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے اس موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ یہ معاہدہ ان کے ملک کے خدشات اور سلامتی کے چیلنجوں کو حل کرتا ہے اور آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کے لیے تکنیکی تقاضوں کا تعین کرتا ہے۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ایران کے خلاف "کسی بھی معاندانہ اقدام" کی صورت میں، جس میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کا دوبارہ نفاذ بھی شامل ہے، ایران آئی اے ای اے کے ساتھ معاہدے کو ختم سمجھے گا۔
مصر کے وزیر خارجہ عبدالعاطی نے متنبہ کیا کہ "آج جس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں وہ معاہدہ ایک ایسے راستے کا آغاز ہے جس کے لیے ہر ایک سے عزم کی ضرورت ہے۔"
نئی پابندیوں کی دھمکی کے بعد فریم ورک
آئی اے ای اے اور ایران کے درمیان یہ میٹنگ ایک ایسے حساس وقت پر ہوئی ہے، جب اگست کے آخر میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کا 30 روزہ عمل شروع کیا۔
تینوں ممالک نے کہا تھا کہ ایران 2015 کے معاہدے کی تعمیل نہیں کر رہا ہے جس کا مقصد اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا تھا۔
ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، جبکہ مغربی ممالک حکومت پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایران نے جولائی میں اقوام متحدہ کے نگراں ادارے کے معائنہ کاروں کے ساتھ اس وقت تعاون معطل کر دیا تھا، جب جون میں اسرائیل اور پھر امریکہ کی طرف سے اہم جوہری تنصیبات پر حملے کیے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی کئی ہفتوں سے ایرانی حکام کے ساتھ معائنہ دوبارہ شروع کرنے پر بات چیت کر رہی تھی، خاص طور پر 400 کلوگرام سے زیادہ یورینیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جس کے بارے میں آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ اسے تقریباً ہتھیاروں کے درجے تک افزودہ کیا گیا ہے۔
ابھی تک ایران نے ایجنسی کو یہ نہیں بتایا کہ یہ مواد کہاں ذخیرہ کیا جا رہا ہے یا حملوں کے بعد یہ کس حالت میں باقی ہے۔
جنگ کے بعد سے آئی اے ای اے کی طرف سے معائنہ کرنے والی واحد سائٹ بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ ہے، جو روسی تکنیکی مدد سے کام کرتا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے منگل کو دیر گئے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، "ایران کی جوہری تنصیبات کے معائنے کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے آج کا فریم ورک معاہدہ جوہری سفارت کاری کے لیے ایک اہم قدم کی نشاندہی کر سکتا ہے، بشرطیکہ ایران اس پر تیزی سے عمل درآمد کرے۔"
ادارت: جاوید اختر