نیپال: موجودہ سیاسی بحران کے بعد ملک کس کروٹ بیٹھے گا؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 10 ستمبر 2025 11:20

نیپال: موجودہ سیاسی بحران کے بعد ملک کس کروٹ بیٹھے گا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 ستمبر 2025ء) نیپال کے وزیراعظم کھڑگ پرساد اولی نے منگل کو حکومت مخالف ہلاکت خیز مظاہروں کے بعد استعفیٰ دے دیا، جس نے اس غریب ہمالیائی ملک کو ایک نئے سیاسی بحران میں دھکیل دیا۔

اپنے استعفیٰ نامے میں اولی نے صدر رام چندر پاؤڈیل کو لکھا،’’ملک کی خراب صورتحال کے پیشِ نظر، میں نے آج سے مؤثر طور پر استعفیٰ دے دیا ہے تاکہ مسئلے کے حل میں سہولت ہو اور اسے آئین کے مطابق سیاسی طور پر حل کیا جا سکے۔

‘‘

استعفیٰ اس وقت سامنے آیا جب مظاہرین نے نیپالی پارلیمنٹ کی عمارت، کئی سپر مارکیٹ، سرکاری دفاتر، میڈیا کے دفاتر سمیت نیپال کے اعلیٰ سیاسی رہنماؤں کے گھروں کو آگ لگا دی، جن میں صدر پاؤڈیل اور وزیرِ داخلہ رامیش لیکھک کے گھر بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر قومی اتحاد کی حکومت قائم نہ ہوئی تو نیپال طویل سیاسی انتشار میں گھر سکتا ہے۔

کھٹمنڈو یونیورسٹی کے آئینی قانون کے پروفیسر بیپن ادھیکاری نے کہا، ’’ایسی صورتحال میں آئین میں واضح ہدایت موجود نہیں کہ آگے کیا ہونا چاہیے۔ ایک ممکنہ راستہ یہ ہے کہ صدر ایک جامع قومی اتفاقِ رائے کی حکومت بنانے کی اپیل کریں۔ وزیراعظم کا انتخاب پارلیمان سے ہونا چاہیے، جیسا کہ 2015 کے آئین میں درج ہے، اور اس دوران زی نسل کے نوجوانوں کے مطالبات کو بھی ان کی نمائندگی کے ذریعے اس مکالمے میں شامل کیا جانا چاہیے۔

‘‘

کیا سیاسی خلا پیدا ہو گا؟

سیاسی سائنس دان اور فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن نیپال کے سینئر پروگرام منیجر، سی ڈی بھٹہ، نے کہا کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی ساکھ ’’غیرمعتبر‘‘ ہو چکی ہے۔

انہوں نے ڈویچے ویلے کو بتایا، ’’اس وقت سبھی لوگ موقع سے فائدہ اٹھا کر حکومت کی قیادت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔

ہم پہلے ہی سیاسی اور آئینی خلا میں داخل ہو چکے ہیں۔‘‘

بھٹہ نے زور دیتے ہوئے کہا، ’’اب یہ مسئلہ صدر کو نیپالی فوج کی مدد سے حل کرنا ہو گا۔ واحد راستہ یہ ہے کہ اگلی منتخب حکومت کے قیام تک ایک شہری حکومت بنائی جائے جسے نیپالی فوج کی مکمل حمایت حاصل ہو، کیونکہ فوج ہی اس وقت ملک کی واحد مؤثر اور جائز طاقت ہے۔‘‘

ادھیکاری بھی اسی رائے کی تائید کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’’اس حکومت کو نیپالی فوج کی حمایت حاصل ہونی چاہیے، کیونکہ یہی وہ واحد طاقت ہے جو اس وقت امن و امان قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘

تازہ بحران کے پیچھے کیا ہے؟

بھارت اور چین کے درمیان واقع زمینی طور پر محصور نیپال گذشتہ دو دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام اور معاشی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔

حالیہ بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب نیپالی حکام نے گزشتہ ہفتے 26 ’’غیر مقامی رجسٹرڈ‘‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ملک گیر پابندی عائد کردی، جن میں فیس بک، ایکس، یوٹیوب، لنکڈ اِن اور واٹس ایپ بھی شامل ہیں۔

حکومت نے کہا کہ یہ کمپنیاں نئی ریاستی ضوابط پر عمل کرنے میں ناکام رہیں، جن کے تحت انہیں ملک میں رابطہ دفتر یا نمائندہ مقرر کرنا لازمی تھا۔

لیکن ناقدین نے اس اقدام کو ’’آزادیٔ اظہار پر حملہ‘‘ اور اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش قرار دیا۔

فریڈم فورم نیپال کے چیئرمین تارا ناتھ دہل کا کہنا ہے، ’’یہ ایک غیر مقبول حکومت کی طرف سے ناقدین کو خاموش کرنے کی ایک مایوس کن کوشش تھی۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق مظاہرے صرف سوشل میڈیا پابندی کے خلاف نہیں تھے، بلکہ بدانتظامی اور بدعنوانی کے خلاف بڑھتی ہوئی مایوسی اور بے چینی کا بھی اظہار تھے۔

اٹھارہ سے 30 سال کے نوجوانوں کی قیادت میں یہ مظاہرے زیادہ تر بغیر کسی لیڈر کے ہیں۔

کئی نوجوان اس بات پر خاص طور پر ناراض ہیں کہ سیاسی رہنماؤں کے بچے پُرتعیش زندگی اور بے شمار مراعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر نوجوان ڈھنگ کی ملازمتوں کے فقدان سے پریشان ہیں۔

مظاہرے میں شامل ایک نوجوان، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، ڈویچے ویلے کو بتایا، ’’ہم سیاسی نظام یا آئین کے خلاف نہیں ہیں۔

ہم اس اقربا پرور حکومت، سیاسی جماعتوں اور ان کی نااہل قیادت کے خلاف ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہم اچھی حکمرانی اور ان لوگوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں جو ان مظاہروں کے دوران جان سے گئے۔ ہم نہیں چاہتے کہ نئے سیاسی منظرنامے میں پھر وہی پرانے چہرے سامنے آئیں۔‘‘

تحمل اور جوابدہی کی اپیلیں

پیر کے روز دارالحکومت کھٹمنڈو میں دسیوں ہزار مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جبکہ ہجوم نے پارلیمنٹ کی عمارت کو گھیر لیا۔

سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کردی، جس میں کم از کم 19 افراد ہلاک اور تقریباً 150 زخمی ہو گئے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشدد پر جوابدہی اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نیپال کے ڈائریکٹر نیرجن تھاپالیہ نے کہا کہ ان کی تنظیم ''نیپال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مہلک اور غیر مہلک طاقت کے غیر قانونی استعمال کی سخت مذمت کرتی ہے‘‘ اور حکام پر زور دیا کہ ’’زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔

‘‘

مظاہروں نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ منگل کی صبح اپنی سوشل میڈیا پابندی واپس لے لے، اس سے قبل کہ وزیراعظم اولی نے استعفیٰ دیا۔

لیکن حکومت کے خلاف غصہ کم نہیں ہوا، اور کھٹمنڈو میں غیر معینہ کرفیو کے باوجود مظاہرے جاری رہے۔

اولی کے استعفیٰ کے بعد نیپالی فوج نے ایک بیان جاری کیا اور عوام سے ’’تحمل کا مظاہرہ کرنے‘‘ کی اپیل کی۔

بعد میں نیپال کے آرمی چیف نے بھی قوم سے خطاب کیا۔

بھارت، جہاں لاکھوں نیپالی شہری رہتے ہیں، نے امید ظاہر کی کہ پڑوسی ملک میں تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔

آسٹریلیا، فن لینڈ، فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، برطانیہ، ناروے، جرمنی اور امریکہ کے سفارتخانوں نے بھی نیپال میں مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں تمام فریقین پر زور دیا گیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں، مزید کشیدگی سے گریز کریں اور بنیادی حقوق کو یقینی بنائیں۔

ادارت: صلاح الدین زین