خودکشی بارے نقصان دہ غلط فہمیاں اور بیانہ بدلنے کی ضرورت، ڈبلیو ایچ او

یو این جمعرات 11 ستمبر 2025 19:45

خودکشی بارے نقصان دہ غلط فہمیاں اور بیانہ بدلنے کی ضرورت، ڈبلیو ایچ ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 ستمبر 2025ء) دنیا بھر میں ہر سال سات لاکھ 20 ہزار سے زیادہ لوگ خودکشی اور بہت سے اس کی کوشش کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس مسئلے پر بیانیہ تبدیل کرنے پر زور دیا ہے تاکہ نقصان دہ غلط فہمیوں قابو پایا جائے، بدنامی میں کمی لائی جائے اور ہمدردانہ مکالمے کو فروغ دیا جا سکے۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ خودکشی کے ذریعے کھوئی جانے والی ہر زندگی خاندانوں، دوستوں، ساتھیوں اور پورے معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

دنیا میں ہر عمر کے لوگ خودکشی کرتے ہیں اور 2021 میں یہ 15 تا 29 سال عمر کے لوگوں کی اموات کا تیسرا بڑا سبب تھا۔

(جاری ہے)

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ خودکشی محض بلند آمدنی والے ممالک میں ہی عام نہیں اور اس کے اثرات دنیا کے تمام خطوں پر مرتب ہوتے ہیں۔

2021 میں خودکشی کے تقریباً تین چوتھائی واقعات کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں پیش آئے۔ اُس برس دنیا بھر میں خودکشی کرنے والوں کی اوسط تعداد ایک لاکھ میں 8.9 فیصد تھی۔

افریقہ میں یہ اوسط 11.5 فیصد پر برقرار ہے جبکہ مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں یہ تعداد 4.0 فیصد جبکہ مغربی الکاہل خطے میں 7.5 فیصد ہے۔

خودکشی کے نمایاں اسباب

بلند آمدنی والے ممالک میں خودکشی اور اس کی کوشش کا ذہنی مسائل بالخصوص ڈپریشن اور شراب نوشی کے نتیجے میں جنم لینے والے مسائل سے واضح تعلق ہے۔

تاہم، خودکشی کی بہت سی کوششیں بحرانی حالات میں جذباتی اشتعال کے باعث ہوتی ہیں جب کوئی فرد زندگی کا دباؤ جھیلنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ عام طور پر یہ دباؤ مالی مسائل، خراب تعلقات یا شدید درد اور بیماری سے جنم لیتا ہے۔ علاوہ ازیں، تنازعات، آفات، تشدد، بدسلوکی یا تنہائی کے احساس کا بھی خودکشی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔

خودکشی کی شرح پناہ گزینوں، تارکین وطن، قدیمی مقامی لوگوں، ہم جنس پرست، دو جنسی رجحانات کے حامل افراد، ٹرانس جینڈر، بین جنسی افراد اور قیدیوں جیسے کمزور طبقات میں کہیں زیادہ ہے جو عموماً امتیازی سلوک کا شکار ہوتے ہیں۔

ذہنی صحت پر سرمایہ کاری

ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ خودکشی کی روک تھام کے لیے ایسا ماحول پیدا کرنا ہو گا جہاں لوگ خود کو محفوظ محسوس کریں اور اپنی بات کہنے اور مدد لینے کے قابل ہوں۔ خودکشی سے متعلق بیانیہ تبدیل کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ نظام کو تبدیل کیا جائے جہاں حکومتیں معیاری ذہنی صحت کی دیکھ بھال کو ترجیح دیں اور اس پر سرمایہ کاری کریں تاکہ ہر فرد کو وہ مدد مل سکے جس کی اسے ضرورت ہو۔

'ڈبلیو ایچ او' کی گزشتہ سال جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق، اب تک حکومتوں کی جانب سے سالانہ بجٹ میں ذہنی صحت پر خرچ کیے جانے والے وسائل کی اوسط شرح محض 2 فیصد پر برقرار ہے۔ مزید برآں، امیر اور غریب ممالک کے درمیان ذہنی صحت پر خرچ ہونے والے وسائل میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ جہاں امیر ممالک ہر فرد پر 65 ڈالر تک خرچ کرتے ہیں، وہیں غریب ممالک میں یہ خرچ صرف 0.04 ڈالر تک محدود ہے۔

خودکشی کی روک تھام

'ڈبلیو ایچ او' کا کہنا ہے کہ خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے کے عمل کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات ممکن ہیں۔ اس حوالے سے ادارے نے درج ذیل اقدامات تجویز کیے ہیں:

  • خودکشی کے ذرائع (زہریلے کیمیکل، آتشیں اسلحہ اور مخصوص ادویات وغیرہ) تک رسائی کو محدود کرنا
  • خودکشی کی خبروں کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کو یقینی بنانے کے لیے ذرائع ابلاغ سے موثر رابطہ
  • نوجوانوں میں سماجی اور جذباتی زندگی کی مہارتوں کا فروغ
  • خودکشی جیسے رویوں سے متاثرہ افراد کی بروقت شناخت، تشخیص اور علاج

ادارے کا کہنا ہے کہ مناسب طریقے سے کام لینے کی صورت میں یہ اقدامات خودکشی کے واقعات کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔