اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 ستمبر 2025ء) اہم بات یہ بھی ہےکہ ایسے ہر واقعے میں مبینہ ملزم کوئی نہ کوئی مرد تھا اور اس کو ''حادثاتی طور پر چل جانے والی‘‘ گولی جنسی اعضاء پر لگی۔ ایسے واقعات میں پائی جانے والی حیران کن مماثلت سوشل میڈیا پر مسلسل موضوع بحث ہے۔ بعض صارفین کے نزدیک تو یہ جنسی جرائم کے خاتمے کے لیے ’’مؤثر قدم‘‘ ہے جبکہ بہت سے حلقے ایسے واقعات کو ''ماورائے عدالت سزائیں‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں غیر قانونی، غیر انسانی اور عدالتی عمل پر عدم اعتماد کو مزید گہرا کر دینے والا عمل سمجھتے ہیں۔
نیفے میں پستول کا چل جانا: یہ واقعات کب اور کہاں پیش آئے؟
پچیس جولائی کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک نوجوان ایک کمسن بچی سے نازیبا حرکات کر رہا تھا۔
(جاری ہے)
یہ ویڈیو قصور کی تھی اور پولیس کے مطابق جب دو دن بعد ملزم کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، تو اس نے اپنی شلوار کے نیفے سے پستول نکالنے کی کوشش کی۔ اس دوران ’’اچانک‘‘ پستول کا ٹریگر دب گیا اور مبینہ ملزم زخمی ہو گیا۔
اسی طرح 22 اگست کو قصور میں ہی ایک اور ملزم اپنے ہی پستول کی گولی لگنے سے زخمی ہوا۔ اس کے بعد 24 اگست کو ملتان، 31 اگست کو وہاڑی اور دو ستمبر کو لاہور میں بھی مبینہ جنسی جرائم کے ملزمان گرفتاری کے دوران اپنے ہی پستولوں سے زخمی ہو گئے۔
اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ پانچ ستمبر کو سیالکوٹ میں پیش آیا، جہاں ایک ماں اور اس کی بیٹی کو ہراساں کرنے والا شخص اپنے حراست میں لیے جانے کی کوشش کے دوران مبینہ طور پر اپنے نیفے میں رکھے ہوئے پستول سے گولی چل جانے کے باعث زخمی ہو گیا۔
ان جملہ واقعات میں حیران کن مماثلت پائی جاتی ہے اور ماہرین کے مطابق ایسے واقعات صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ وہ پولیس کی مبینہ طور پر ''غیر اعلانیہ حکمت عملی‘‘ کی عکاس بھی ہے۔
ان نصف درجن واقعات میں سبھی ملزمان مرد تھے اور ان پر ہراسانی یا زیادتی جیسے جنسی جرائم کے الزامات تھے۔ تمام ملزمان پولیس کے مطابق ”نیفے میں رکھے پستول کے اچانک چل جانے" سے زخمی ہوئے۔
ہر بار گولی ملزم کے جنسی اعضاء پر ہی لگی۔ایسے واقعات پولیس کی ’غیر اعلانیہ حکمت عملی‘ کے عکاس؟
اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل، ڈاکٹر مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت سزائیں دیا جانا کسی حادثے یا اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ’’منظم اور طے شدہ حکمت عملی‘‘ ہے۔
انہوں نے کہا، ”ہمارے ہاں ہر مسئلے کا حل طاقت کا استعمال سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس اس حوالے سے ایک خاص شہرت رکھتی ہے کہ بہادر افسر وہی ہے، جو کسی کو جان سے مارتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہو۔ جب کسی ادارے میں ایسے کلچر کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی جائے گی، تو ماورائے عدالت قتل یا نیفوں میں پستول کیسے نہیں چلیں گے؟‘‘
سابق آئی جی ڈاکٹر مجیب الرحمان کا کہنا تھا، ''آپ اسے کاؤنٹر کرائم ڈیپارٹمنٹ کہہ لیں یا کچھ اور۔
وہی پولیس کے لوگ ہیں اور وہی رویہ ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد خوف کے ذریعے جرائم کم کرنے کی کوشش ہے، حالانکہ ماورائے عدالت سزاؤں کا طریقہ کئی مزید جرائم کی راہیں کھول دیتا ہے۔"انسانی حقوق کے حوالے سے ایسے واقعات کی نوعیت
انسانی حقوق کے لیے سرگرم پاکستان کی ایک غیر سرکاری لیکن ملک گیر تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اسد اقبال بٹ ایسے واقعات کو ’'پولیس راج‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''نیفے میں پستول چلنے کے تمام واقعات میں ملزمان پر جنسی جرائم کے الزامات تھے اور اسی لیے ان کے جنسی اعضاء کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ پولیس کی جانب سے ایک غیر اعلانیہ پیغام ہے کہ جو کوئی بھی جنسی جرائم میں ملوث ہو گا، اسے کسی عدالت سے سزا کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ فوراً جسمانی معذوری یا جنسی اعضاء سے محرومی کی شکل میں عبرت ناک انجام بھگتنا ہو گا۔
"اسد اقبال بٹ کا کہنا تھا، ''ایک جمہوری آئین والے ملک میں یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ پولیس راج ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری حکومتیں تشدد کی سرپرستی کر رہی ہیں۔"
جنسی جرائم کا حل نیفے میں پستول کا 'اچانک‘ چل جانا؟
بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف فعال ادارے 'ساحل‘ کی ایک ششماہی رپورٹ رواں برس جولائی میں شائع ہوئی، جس میں شامل اعداد و شمار کے مطابق 2025 کے پہلے پانچ ماہ کے دوران بچوں سے کی گئی جنسی زیادتیوں کے ساڑھے نو سو کیس رپورٹ ہوئے۔
اسی طرح سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی گزشتہ برس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں بچوں کے خلاف 7600 سے زیادہ مجرمانہ واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں جنسی تشدد، اغوا اور بچوں کی ٹریفکنگ بھی شامل تھے۔
کیا پولیس کا یہ مبینہ رویہ جنسی جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟
پاکستانی شہر قصور کے زینب قتل کیس پر کتاب لکھنے والے مصنف احمد اعجاز اس امکان سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہمارے معاشرے کی یہ عمومی سوچ ہے کہ سرعام سخت سزائیں جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہیں۔ زینب قتل کیس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس وقت ہر طرف یہی شور تھا کہ زینب کے مجرم کو فوری پھانسی پر لٹکایا جائے، تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی کوئی گھناؤنی حرکت نہ کرے۔ لیکن نیفے میں پستول چلنے کے ابتدائی دونوں واقعات تو زینب کے شہر قصور سے ہی رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے جنسی جرائم کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے اور سخت سزا کے ذریعے نشان عبرت بنا کر جرائم کو روکنے کا مفروضہ درست نہیں۔"اس حوالے سے سابق آئی جی ڈاکٹر مجیب الرحمان نے کہا، ''پولیس کے ذریعے مجرموں کو سخت سزائیں دلوانا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ایسے اقدامات وقتی طور پر خوف ضرور پیدا کر سکتے ہیں اور کچھ لوگوں کو جرائم سے باز رکھنے میں مددگار بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
تاہم صرف خوف پر مبنی نظام زیادہ دیرپا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ جرائم کے بنیادی اسباب تو اپنی جگہ باقی رہتے ہیں۔"احمد اعجاز کے بقول، ”پاکستان میں ثقافتی گھٹن ہے۔ جب تک یہ گھٹن برقرار رہے گی، تب تک جرائم ہوتے رہیں گے۔ جو معاشرے ثقافتی گھٹن کا شکار نہیں ہیں، وہاں بھی جنسی جرائم ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسے جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے اور ان کی نوعیت بھی بڑی کریہہ اور خوفناک ہوتی ہے۔"
ادارت: مقبول ملک