پاک فوج کے ایک حالیہ آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے خارجی ملزم عبدالصمد نے اعترافی بیان میں فتنہ الخوارج کے کروہ اور آئینی منافقت سے بھرپور حقائق سامنے رکھ دیئے

جمعہ 12 ستمبر 2025 12:58

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 ستمبر2025ء) پاک فوج کے ایک حالیہ آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے خارجی ملزم عبدالصمد نے اعترافی بیان میں فتنہ الخوارج کے کروہ اور آئینی منافقت سے بھرپور حقائق سامنے رکھ دیئے ہیں۔ ملزم کے مطابق اس نے کئی سال تک مختلف شدت پسند حلقوں میں شمولیت اختیار رکھی اور وہاں تربیت اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق گرفتار ملزم عبدالصد‌مد نے اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ وہ تقریباً ساڑھے چار سال افغانستان میں رہا جہاں اسے اسلحہ چلانے کی تربیت دی گئی۔ اس کے بعد وہ مختلف کمانڈروں خصوصاً گل بہادر گروپ کے کمانڈر صادق اور بعد ازاں حافظ گل بہادر گروپ کے کمانڈر اسد کے ساتھ رہا اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے گروہی سرگرمیوں میں شامل ہوا۔

(جاری ہے)

عبدالصمد نے اعتراف کیا کہ زنگوٹی کے علاقے میں اسد کے زیرِ اثر ایک مسجد مرکزیت رکھتی تھی جہاں شدت پسندانہ ایجنڈے کے تحت مختلف کارروائیاں اور تربیتی سرگرمیاں چلائی جاتی تھیں۔ ملزم نے کہا کہ وہاں بچوں کو بھی بدنام طریقوں کے لیے استعمال کیا جاتا اور مساجد کو اپنے مقاصد کے لیے بدنام کیا جاتا تھا — وہ باتیں جنہیں اس نے خود گناہ سمجھا اور جنہوں نے اسے متاثر کیا۔

گرفتار ملزم نے واضح کیا کہ اسد اور اس کے گروہ فوج کو مرتد قرار دے کر حمایت کو دہشت گردانہ کارروائیوں کی طرف راغب کرتے تھے اور مقامی آبادی میں بدامنی پھیلانے کی کوششیں کی جاتی تھیں۔ عبدالصمد نے کہا کہ جب اس نے ان برتاؤ اور منکراتی عمل کو دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ یہ گروہ مذہب کے نام پر شہریوں اور بچوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک میں ملوث ہے۔

ملزم نے مزید کہا کہ جب وہ خود وہاں سے روانہ ہونے کا ارادہ کر رہا تھا تو فوج نے آپریشن کر دیا، جس کے بعد شدت پسند وہاں سے فرار ہو گئے۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ فرار سے قبل اس کے موبائل فون فارمیٹ کر دیے گئے اور شناختی کارڈ اغوا کاروں کے ہاتھ رہے۔عبدالصمد نے اپنی گواہی میں طالبان اور خود کو درپیش حقائق کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ پانچ سال تک طالبان کے ساتھ رہنے کے باوجود جب اس نے فوج کے ساتھ گزارے پانچ دن دیکھے تو اسے احساس ہوا کہ فوج کا رویہ شہریوں کے ساتھ شفاف اور منصفانہ ہے جبکہ شدت پسند گروہ منافقانہ اور بربریت پر مبنی ہیں۔

اس نے عوام سے اپیل کی کہ اپنے بچوں کو ایسے افراد اور گروہوں سے محفوظ رکھیں اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔گرفتار ملزم کے اعترافات نے شدت پسند حلقوں کے چہروں کی ملامت اور ان کی سرگرمیوں کی نوعیت واضح کر دی ہے۔ ان بیانات میں بچوں اور مساجد کو بدنام کرنے، مذہب کے نام پر جرائم اور مقامی آبادی کو خوفزدہ کرنے جیسی سنگین نوعیت کی باتیں شامل ہیں جو معاشرے کے لیے انتباہ ہیں۔

یہ اعترافی بیان ایک بار پھر بتاتا ہے کہ ملک کے اندر اور سرحد پار سے پروان چڑھنے والے دہشت گرد نیٹ ورکس نہ صرف قلم اور علم کے خلاف ہیں بلکہ انسانی اقدار اور سماجی ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں۔ گرفتاری اور انکی کھلی گواہی کے بعد اب سوال یہ ہے کہ ریاست اور سکیورٹی ادارے ان خبیث قوتوں کے خلاف کس قدر فیصلہ کن کارروائیاں کریں گے تاکہ اس نوعیت کے گروہوں کی سرکوبی ممکن ہو اور عوام محفوظ رہیں۔