اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 ستمبر 2025ء) ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں اتوار کے روز دسیوں ہزار افراد نے ایک اہم عدالتی فیصلے سے قبل احتجاج کیا، جس میں مرکزی اپوزیشن جماعت کے سربراہ پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کیے جانے کا خدشہ ہے۔
ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے رہنما اوزگور اوزیل نے پیر کے روز ہونے والی سماعت کو ملک کی اپوزیشن کے خلاف ترکی کی حکومت کی طرف سے عدالتی بغاوت کا حصہ قرار دیا۔
سی ایچ پی کے سینکڑوں ارکان کے خلاف ایک سال کے طویل قانونی کریک ڈاؤن کے بعد اتوار کے روز لوگوں کو ترکی کے جھنڈے اور پارٹی بینرز لہراتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف نعرے بازی کرتے اور استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
(جاری ہے)
انقرہ میں احتجاج کے دوران کیا ہوا؟
حزب اختلاف کے رہنما کے مقدمے پر سماعت کے موقع پر سی ایچ پی کے ہزاروں کارکن انقرہ کے تاندو جان اسکوائر میں جمع ہوئے۔
پارٹی کے نائب صدر مرات بکان نے دعویٰ کیا کہ وہاں 50,000 لوگ موجود تھے۔ریلی میں خطاب کے دوران اوزگور اوزیل نے پندرہ ستمبر کی عدالتی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے، جو انہیں لیڈر کے طور پر معزول بھی کر سکتی ہے، نے کہا کہ لوگ پارٹی کے خلاف کی جانے والی "(عدالتی) بغاوت کے خلاف کھڑے ہونے" کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، "یہ حکومت جمہوریت نہیں چاہتی۔
وہ جانتے ہیں کہ اگر جمہوریت رہی، تو وہ انتخابات نہیں جیت سکتے۔ وہ انصاف نہیں چاہتے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر انصاف ہے تو وہ اپنے جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکیں گے۔"انہوں نے اس کیس کو سیاسی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور الزامات کو بہتان قرار دیا۔ اوزیل نے کہا، "یہ ایک بغاوت ہے (اور) ہم مزاحمت کریں گے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "بدقسمتی سے، جو بھی حکومت کے لیے جمہوری طور پر خطرہ بناتا ہے وہ اب حکومت کا ہدف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر ایردوآن کی حکومت "بیلیٹ باکس کے بجائے جبر کے ذریعے حکومت کرنے کا انتخاب کر رہی ہے۔"سی ایچ پی رہنما کے خلاف مقدمہ کیا ہے؟
پیر کے روز کی سماعت میں نومبر 2023 میں مبینہ ووٹوں کی دھاندلی کے الزام کے تحت سی ایچ پی کی کانگریس کے ان نتائج کو الٹنے کی کوشش کی جائے گی، جس میں اوزیل کو پارٹی کا لیڈر منتخب کیا گیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ترکی کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کو کمزور کرنے کی سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کی کوشش ہے، جس نے 2024 کے بلدیاتی انتخابات میں صدر ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے خلاف زبردست کامیابی حاصل کی تھی اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ترک رہنما کو مخاطب کرتے ہوئے اوزیل نے کہا، "ایردوآن: کیا آپ نے کبھی تاندوجان اسکوائر کو اس طرح سے دیکھا ہے؟" اس پر مظاہرین نے نعرہ لگایا: "ایردوآن استعفیٰ دیں۔
"سی ایچ پی کے سینکڑوں ارکان کو بدعنوانی اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ جیل جانے والوں میں ایردوآن کے اہم سیاسی حریف استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو بھی شامل ہیں۔
مارچ میں امام اوغلو کی گرفتاری کے سبب ترکی میں ایک دہائی میں سب سے بڑی بدامنی کو جنم دیا تھا، جہاں سیکڑوں ہزار لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
ادارت: جاوید اختر