اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 ستمبر 2025ء) تاریخ میں جنگیں سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیاں لاتی رہیں ہیں۔ یہ حکمرانوں کو بدلتی ہیں۔ قوموں کو عروج و زوال سے نکالتی ہیں، قتل و غارت گری اور خونریزی سے ملکوں اور قوموں کو برباد کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ایک جنگ دوسری جنگ کو جنم دیتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اولین طور پر جنگ سماجی تبدیلی لے کر آتی ہے کیونکہ مرد جنگ لڑتے ہیں اس لیے وہ بہادر، نڈر اور شجاعت کا پیکر ہوتے ہیں۔
اس لحاظ سے جنگ کے ذریعے عورت کا سماجی درجہ گِر جاتا ہے اور مرد کو اُس پر فوقیت حاصل ہو جاتی ہے۔ عورت صَنفِ نازک بن کر جنگ کی خونریزی کو برداشت نہیں کر سکتی۔ جرمن مفکر اوزوالڈ شپنگلر نے اپنی کتاب "زوال مغرب" میں لکھا ہے کہ عورتیں امن کی حامی ہوتی ہیں۔(جاری ہے)
کیونکہ یہ بچوں کو جنم دیتی ہیں، اُن کی پرورش کرتی ہیں اور نہیں چاہتی کہ اُن کی اولاد کو جنگ میں قربان کر دیا جائے۔
جنگ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس میں سپہ سالار ہمیشہ فاتح ہوتا ہے۔ عام فوجیوں کی قربانی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔عام فوجیوں کو ذہنی طور پر جنگ میں حصہ لینے کے لیے کئی نظریات کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک وطن پرستی کا جذبہ ہے۔ اس کے ذریعے عام فوجیوں کو وطن کے دفاع اور حفاظت کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ یونان میں چار صدی قبل مسیح ایتھنز اور اسپارٹا کے درمیان پلوپونیشین کی جنگ میں ایتھنز کے فوجیوں کے مرنے پر بڑے میدان میں تعزیتی جلسہ ہوا۔
جس میں اس وقت کے اسٹیٹس مین اور جنرل پیراکولیس نے تقریر کرتے ہوئے مرنے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کی یہ تقریر یونانی مورخ تھیوسی ڈیڈیز نے اپنی تاریخ میں لکھی ہے۔ میدان میں ایک طرف مرنے والے فوجیوں کے تابوت تھے۔ دوسرے جانب ان کے اہل خانہ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے اور وہ غمگین بھی تھے۔ پیراکولیس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جنگ میں مرنے والے فوجیوں نے ایتھنز کا دفاع کیا اور اپنے وطن کی خاطر جانوں کی قربانی دی۔ یونان کی تاریخ ان کی قربانی کو فراموش نہیں کرے گی۔ جب اُسکی تقریر جاری تھی عورتیں سسکیاں بھر کر رو رہی تھیں اور اپنے جدا ہونے والوں کی یاد میں اُنہیں وطن کی محبت کا نعرہ بھی مطمئن نہیں کر سکا۔کیونکہ افراد آسانی سے اپنی جانیں دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے اس لیے سیاست دان اور فوجی جنرلز جوانوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے مذہب کو پوری طرح سے استعمال کرتے ہیں۔
اس کی ایک مثال مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی ہے، جب اُسکا مقابلہ رانا سانگھا سے ہوا تو ظہیر الدین بابر عسکری لحاظ سے کمزور تھا۔ یہ 1526 کی بات ہے۔ لہذا فوجیوں میں لڑائی اور مقابلے کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے پہلے تو اُ س نے اپنی شراب کے پیالے توڑے۔ شراب کو بہا دیا اور توبہ کی کہ اب کبھی شراب نوشی نہیں کرے گا۔ اس کے بعد اُس نے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو اس جنگ میں مارا جائے گا وہ شہید ہوگا۔ جو فاتحہ ہوگا وہ غازی کہلائے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بابر کو اس جنگ میں فتح ہوئی۔فوجیوں میں جنگی جوش پیدا کرنے کے لیے کئی اور نظریات کو بھی استعمال کیا گیا، جب نپولین نے 1798 میں مصر پر حملہ کیا اور اُسک کی وہاں کے حکمران مملوکوں سے جنگ ہوئی تو اُس نے فرانسیسی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں سال پرانے اہرام تمھیں دیکھ رہے ہیں اور تمھیں اس جنگ میں فتح پانی ہے۔
حالانکہ جہاں جنگ ہوئی تھی، وہاں دور تک اہرام ِمصر نظر نہیں آتے تھے۔ایک اور جنگ جس نے انقلاب کی حیثیت حاصل کی وہ فرانس کی کالونی DOMIG تھی۔ جہاں کافی اور شکر کی پیداوار ہوتی تھی۔ کھیتوں کے مالک سفید فام فرانسیسی تھے جبکہ محنت ومشقت کرنے والے افریقی غلام تھے۔ جب فرانسیسی انقلاب نے غلامی کا خاتمہ کیا تو 1791 میں غلاموں نے متحد ہو کر اپنی آزادی کا اعلان کیا۔
لیکن جب نپولین فرانس کا شہنشاہ بنا تو اس نے Saint-Domingue کے خلاف ایک فوجی مہم بھیجی۔ جنگ میں ایک طرف نہتے افریقی تھے۔ دوسری جانب مسلح فرانسیسی تھے۔ جب فرانسیسی فوجیوں نے افریقیوں پر گولا باری کی تو وہ ڈرتے ہوئے تو پوں کی جانب بڑھے۔ افریقی مرتے بھی رہے اور دوڑتے ہوئے توپوں پر جا گرے۔ فرانسیسی فوجی اس منظر کو دیکھ کر گھبرا گئے اور راہ فرار اختیار کی۔ St.-Domingue جو اب ہیٹی کہلاتا ہے۔ پہلا غلامی سے آزاد ملک تھا۔ اسکی خصوصیت یہ ہے کہ اسکی آزادی نے امریکہ اور کریبئین آئرلینڈ کے غلاموں میں آزادی کا جذبہ پیدا کیا۔ جس نے کئی بغاوتوں کو جنم دیا۔تاریخ میں حکمران طبقہ اور ان کے حواری فاتح بننے ک لیے جنگ میں خونریزی کو فروغ دیتے آئے ہیں۔ شکست خوردہ قیدیوں کو اذیت دی جاتی تھی۔ زندہ قیدیوں کی کھال کھنچوائی جاتی تھی۔
اس صورتحال میں انسان کی کوئی اہمیت نہیں رہتی تھی۔ جنگ رحم دلی اور اخلاقی قدروں کو بُھلا کر انسان کو ظالم بنا دیتی تھی۔ اگرچہ تاریخ میں اسکی کئی مثالیں ہیں مگر ایک مثال جاپان کا چین پر حملہ ہے۔ چین پر قبضے کے بعد مقامی لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور چونگکینگ کے شہریوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ لوگوں کو لائن میں کھڑا کر کے ایک گولی چلائی جاتی اور پھر یہ دیکھا جاتا کہ اس سے کتنے لوگ مرتے ہیں۔ جنگ تمام اخلاقی قدروں سےآزاد ہو جاتی ہے اس کے اثرات طویل عرصے تک شکست خوردہ قوموں پر چھائے رہتے ہیں اور اُنہیں اپنی کمتری کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔