Live Updates
پاکستان کو اندرونی و بین الاقوامی نوعیت کے پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے،ماہرین
منگل 16 ستمبر 2025
00:10
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 ستمبر2025ء) پاکستان کو اندرونی و بین الاقوامی نوعیت کے پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے، تاہم اس کے مستقبل کی کامیابی نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے، تحقیق کو فروغ دینے، ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے اور پالیسی میں جدت پیدا کرنے پر منحصر ہے، تاکہ وسائل اور تہذیبی قوتوں کو پائیدار ترقی میں ڈھالا جا سکے۔
یہ بات دانشوروں، ماہرین تعلیم، سفارت کاروں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ٹیکنوکریٹس نے پیر کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد کی نیشنل ایڈوائزری کونسل (این اے سی) کے سالانہ اجلاس میں کہی۔ اجلاس کہنہ مشق اہلِ علم اور ماہرین سے فکری رہنمائی حاصل کرنے اور قومی مسائل کے حل کے لیے حقیقت پسندانہ تصورات تشکیل دینے کے پلیٹ فارم کے طور پر منعقد کیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
فورم کی صدارت چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی، جبکہ مقررین میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور، وفاقی شرعی عدالت، ڈاکٹر شاہدہ ، ڈین، کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ، آئی او بی ایم کراچی، ڈاکٹر انور الحسن گیلانی، چیئرمین پاکستان کونسل برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ڈاکٹر سید طاہر حجازی، سابق رکن (گورننس) پلاننگ کمیشن آف پاکستان، ڈاکٹر مختار احمد، سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن، سید ابو احمد عاکف، سابق وفاقی سیکرٹری، مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی، سفیر (ر) مسعود خالد، ڈاکٹر رضیہ سلطانہ، وائس چانسلر، ویمن یونیورسٹی مردان، ڈاکٹر اسد زمان، سابق وائس چانسلر، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس، وائس ایڈمرل (ر) افتخار احمد راؤ، ڈاکٹر سید جُنید زیدی، سابق ریکٹر کامسیٹس یونیورسٹی، پروفیسر جلیل عالی، شاعر و محقق، ڈاکٹر وقار مسعود خان، سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ، ڈاکٹر صائمہ حمید، سابق وائس چانسلر فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، میجر جنرل (ر) ڈاکٹر نوئل کھوکھر، ڈاکٹر مسعود محمود خان، کرٹن یونیورسٹی آسٹریلیا، سفیر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس، اور نوفل شاہ رُخ، سی ای او، میو کوم و پالیسی اینالسٹ شامل تھے۔
شرکاء نے نوجوانوں کی تعلیم اور ٹیکنالوجی میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ملک کی یونیورسٹیوں میں طلبہ اور محققین کی شمولیت کو متحرک کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی پی ایس جیسے تھنک ٹینکس کو جامعات اور عالمی تحقیقی کاوشوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہیے اور تحقیق کو عملی، شواہد پر مبنی پالیسی سفارشات میں ڈھالنا چاہیے۔
اجلاس میں حال ہی میں منظور شدہ اے آئی پالیسی کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا گیا، تاہم شرکاء نے نوجوان قیادت کو بااختیار بنانے اور اختراعات کو معاشی و سماجی ترقی میں شامل کرنے کے لیے واضح روڈ میپ کی عدم موجودگی کو اجاگر کیا۔ اس تناظر میں مقررین نے نوجوانوں میں بڑھتی انفرادیت پسندی پر تشویش ظاہر کی، جو اجتماعی قوت کو کمزور کرتی ہے، اور کہا کہ مکالمہ تعاون، انسانی تعلق اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے نہایت اہم ہے۔
خواتین کے بااختیار بنانے اور صنفی برابری کو بھی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا۔ مزید برآں، صوبائی حدود کو نسلی بنیادوں کے بجائے انتظامی بنیادوں پر ازسرِنو ترتیب دینے کی تجویز دی گئی۔ مقررین نے ماحولیاتی تبدیلی کو ایک اور سنگین مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ بار بار آنے والے سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں پاکستان کی معیشت اور غذائی تحفظ کے لیے شدید خطرہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بحران صرف ماحولیاتی تبدیلی کے باعث نہیں بلکہ کمزور منصوبہ بندی اور ترقی کا نتیجہ بھی ہیں۔ اس ضمن میں فورم نے ماحولیاتی مسائل پر اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت اور نظام میں اصلاحات کی سفارش کی۔ مقررین نے سمندری شعبے کو ایک ایسا اہم میدان قرار دیا جس میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے خاص طور پر جھینگا فارمنگ کو خوراکی تحفظ کا ایک اہم ذریعہ بنایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے لیے مربوط پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔
انھوں نے کہا کہ شپنگ کے شعبے میں نجی شعبے کی شمولیت کو سازگار ماحول فراہم کر کے فروغ دینا چاہیے، جبکہ بندرگاہوں کی پرانی ٹیکنالوجیز کی فوری طور پر اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے۔مقررین نے بھارت کے تسلط پسند عزائم اور مسائل پر غیر منطقی رویے کو ایک جامع چیلنج قرار دیا، جس میں حل طلب تنازعات اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے لے کر ہندوتوا کے بڑھتے اثرات تک شامل ہیں۔ فورم نے نتیجہ اخذ کیا کہ صرف سخت تحقیق اور جامع بصیرت پر مبنی پالیسی سازی ہی ملک کو ان بیرونی دباؤ کا مؤثر جواب دینے کے قابل بنا سکتی ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں سے متعلق تازہ ترین معلومات