Live Updates

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا چاول برآمدات کے بحران، ڈی جی کی تعیناتی کی خلاف ورزیوں اور سیلابی تباہی پر شدید اظہارِ تشویش

پاکستان نے چاول کی برآمدات میں تاریخی ریکارڈ قائم کیا تھا، اب ہم سنگین کمی کا سامنا کر رہے ہیں ،بھارت سے بھی کم سطح پر آ گئے ہیں ، اراکین برہم

جمعرات 25 ستمبر 2025 20:10

�سلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 ستمبر2025ء)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے چاول برآمدات کے بحران، ڈی جی کی تعیناتی کی خلاف ورزیوں اور سیلابی تباہی پر شدید اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان نے چاول کی برآمدات میں تاریخی ریکارڈ قائم کیا تھا، اب ہم سنگین کمی کا سامنا کر رہے ہیں ،بھارت سے بھی کم سطح پر آ گئے ہیں جس کی بنیادی وجہ یورپی ممالک کو ترسیلات کی معطلی ہے۔

بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا اجلاس کمیٹی چیئرمین سینیٹر سید مسرور احسن کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں ملک کو درپیش اہم غذائی تحفظ کے مسائل پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ اجلاس میں سینیٹرز پونجو بھیل، دوست محمد خان، راحت جمالی، عبد الوسیع، دنیش کمار، ایمل ولی خان، سردار الحاج محمد اجمر گورگیج اور حافظ عبد الکریم نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

کمیٹی کے اجلاس میں چاول درآمدکنندگان کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے باسمتی چاول کی برآمدات میں شدید کمی پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جو کبھی پاکستان کی سب سے زیادہ منافع بخش برآمدی آئٹم تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے چاول کی برآمدات میں تاریخی ریکارڈ قائم کیا تھا، لیکن اب ہم سنگین کمی کا سامنا کر رہے ہیں حتیٰ کہ بھارت سے بھی کم سطح پر آ گئے ہیں جس کی بنیادی وجہ یورپی ممالک کو ترسیلات کی معطلی ہے۔

سینیٹر دنیش کمار نے کمیٹی کو بتایا کہ 5 ارب روپے مالیت کی برآمدات پالیسیوں کی پابندیوں کے باعث رکی ہوئی ہیں۔ ہم سے NAFSA آرڈیننس پر مشاورت ہی نہیں کی گئی۔ پالیسیاں معیشت اور برآمدکنندگان کو سہارا دینے کے لیے ہونی چاہئیں۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ NAFSA آرڈیننس کو حتمی شکل دینے سے پہلے برآمدکنندگان اور درآمدکنندگان کی تمام اہم ایسوسی ایشنز سے رائے لی جائے گی۔

چیئرمین سینیٹر مسرور احسن نے ہدایت کی کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی سفارشات تحریری طور پر آئندہ اجلاس سے پہلے جمع کرائیں۔اجلاس میں سب سے اہم معاملہ ڈائریکٹر جنرل پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی) کی تعیناتی پر عدالتی احکامات کی عدم تعمیل پر غور کیا گیا۔ چیئرمین سید مسرور احسن نے واضح طور پر کہا کہ یہ تعیناتی عدالت کے ذریعے کالعدم قرار دی جا چکی ہے، اس کے باوجود کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔

یہ عدالتی احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ وزارت کو لازمی طور پر 48 گھنٹوں کے اندر نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا۔کمیٹی اراکین نے اس معاملے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ کمیٹی نے واضح طور پر سفارش کی تھی کہ اس افسر کو عہدے سے ہٹایا جائے، لیکن اب تک عملدرآمد نہیں ہوا۔وزارت کے حکام نے یقین دہانی کرائی کہ وزیر کی واپسی کے بعد معاملہ جلد حل کر دیا جائے گا۔

کمیٹی نے ڈاکٹر طارق خان، مسز اللہ دتہ عابد اور سہیل شہزاد (سابق ڈائریکٹرز، ٹیکنیکل) کے خلاف انکوائری رپورٹس کا جائزہ لیا۔ ان افسران کے مؤقف سننے کے بعد کمیٹی نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ الزامات معمولی نہیں ہیں۔ ممکن ہے ان افسران کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہو۔ ہمیں یہ طے کرنے کے لیے تفصیلی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ الزامات منصفانہ بنیادوں پر لگائے گئے یا نہیں۔

شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے، ایک ذیلی کمیٹی سینیٹر پونجو بھیل کی سربراہی میں تشکیل دی گئی، جس میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا بھی شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی تمام انکوائریوں کا ازسرنو جائزہ لے گی۔وزارتِ فوڈ سیکیورٹی کے سیکرٹری نے بریفنگ دیتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ ان افسران کے خلاف دو الگ الگ انکوائریاں کی گئی تھیں۔ایک انکوائری چاول کی کھیپ میں بے ضابطگیوں پر تھی، جبکہ دوسری انکوائری 2005 سے 2025 تک کے عرصے پر محیط تھی، جس میں 49 افسران (بشمول ریٹائرڈ) شامل تھے۔

کچھ افسران کو سبکدوش کر دیا گیا جبکہ دیگر کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی۔سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ یہ معاملہ صرف ان افسران کو سزا دینے سے حل نہیں ہوگا جو اصل ذمہ دار نہیں تھے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے بھی مزید جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اب ایک تین رکنی ذیلی کمیٹی کو تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے ڈی پی پی کے فضائی اسپرے آپریشنز، بجٹ مختص اور تھرڈ پارٹی آڈٹ (ASSL جیسی کمپنیوں کے ذریعی) کرانے کی بھی سفارش کی۔

وزارتِ فوڈ سیکیورٹی کے حکام نے سیلابی تباہ کاریوں پر بریفنگ دی اور بتایا کہ 25 لاکھ ایکڑ زرعی زمین ملک بھر میں متاثر ہوئی۔پنجاب اور خیبر پختونخوا کی 7 فیصد زرعی زمین کو شدید نقصان پہنچا۔ صرف خیبر پختونخوا میں 35 لاکھ ایکڑ زمین متاثر ہوئی۔پنجاب میں سب سے زیادہ متاثرہ فصلیں چاول، گنا اور مکئی ہیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر مسرور احسن نے کہا کہ یہ ایک قومی المیہ ہے۔

متاثرہ علاقوں کو فوری طور پر آفت زدہ قرار دیا جائے اور متاثرین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت فوری امداد فراہم کی جائے۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے بھی اس مطالبے کی تائید کی اور کہا کہ زرعی تباہی سے نمٹنے کے لیے قومی سطح کے ہنگامی ردعمل کی ضرورت ہے۔کمیٹی نے صوبوں کے درمیان گندم کی ترسیل پر پابندیوں کے مسئلے کا بھی جائزہ لیا۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے خیبر پختونخوا میں گندم کی کمی پر سوال اٹھایا اور کہا کہ صوبے کا جائزہ حصہ روکا جا رہا ہے۔

سینیٹر دنیش کمار نے اس بات کی تائید کی اور کہا کہ بلوچستان کے عوام بھی اسی ناانصافی کا شکار ہیں۔ یہ رویہ قومی اتحاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے زور دیا کہ آئین کے آرٹیکل 151 کے تحت صوبوں کے درمیان آزاد تجارت کو یقینی بنایا جائے۔ تجارت اور کاروبار کو صوبوں کے درمیان آزادانہ طور پر چلنے دینا چاہیے۔ یہ پابندیاں آئین کے منافی ہیں اور قومی وحدت کے لیے خطرہ ہیں۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید مسرور احسن نے کمیٹی کے فیصلوں کا جامع خلاصہ پیش کیا۔ڈی جی ڈی پی پی کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن 48 گھنٹوں کے اندر جاری کیا جائے۔ ذیلی کمیٹی افسران کے خلاف انکوائریوں کا تفصیلی جائزہ لے گی۔ ڈی پی پی کے فضائی آپریشنز اور بجٹ مختص کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کیا جائے گا۔ چاول کی برآمدات کے مسئلے کی تحقیقات کی جائیں گی اور NAFSA آرڈیننس اسٹیک ہولڈرز کی رائے سے مشروط ہوگا۔

سیلاب زدہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر متاثرین کو بی آئی ایس پی کے تحت نقد امداد فراہم کی جائے۔ گندم اور دیگر اشیائے ضروریہ کی آزاد بین الصوبائی تجارت یقینی بنائی جائے تاکہ قومی اتحاد کو مضبوط بنایا جا سکے۔ چیئرمین کمیٹی نے مزید کہا کہ ہم قومی مفادات کو پٹری سے اترنے نہیں دیں گے۔ عوام، معیشت اور قومی وحدت پہلے ہیں اور یہ کمیٹی اس بات کو یقینی بنائے گی۔
Live سیلاب کی تباہ کاریاں سے متعلق تازہ ترین معلومات