لداخ میں ریاستی حیثیت کیلئے پرتشدد احتجاج کے بعد سیکیورٹی سخت کردی گئی

پولیس سے جھڑپوں میں 5 افراد ہلاک ، 30اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے

جمعرات 25 ستمبر 2025 20:30

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 ستمبر2025ء)بھارت کے زیر انتظام خطے لداخ کو ریاستی درجہ دینے کیلئے ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی، پولیس سے جھڑپوں میں اب تک 5 افراد ہلاک اور 30اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق لداخ میں پرتشدد مظاہروں کے اگلے ہی روز بھارتی پولیس نے شمالی شہر لیہ میں گشت کیا۔

گزشتہ روز بھارت کے ہمالیائی خطے لداخ میں ریاستی درجہ دینے اور مقامی رہائشیوں کیلئے نوکریوں کے کوٹے کے مطالبے پر ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس سے جھڑپوں میں 5 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے، اس دوران 30 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔لداخ 2019 میں اس وقت اپنی خودمختاری کھو بیٹھا تھا، جب وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اسے مقبوضہ جموں و کشمیر سے الگ کر کے براہِ راست نئی دہلی کے انتظام کے تحت وفاقی خطے میں تبدیل کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

عام طور پر سیاحوں سے بھرا ہوا یہ شہر پرتشدد مظاہروں کے بعد سنسان دکھائی دیا، زیادہ تر مرکزی سڑکیں خاردار تاروں سے بند تھیں اور پولیس کی بڑی نفری ہتھیاروں سمیت وہاں موجود تھی۔چین اور پاکستان کی سرحدوں سے ملنے والے اس خطے میں گزشتہ روز اس وقت مظاہرے پھوٹ پڑے جب ہجوم نے خودمختاری کا مطالبہ کیا، اس بلند و بالا صحرائی خطے میں جہاں صرف 3 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔

بھارتی وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا کہ ایک ہجوم نے پولیس پر حملہ کیا جس میں 30 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ پولیس کو اپنی حفاظت کیلئے فائرنگ کرنا پڑی جس میں بدقسمتی سے کچھ ہلاکتیں ہوئیں، تاہم بیان میں ہلاکتوں کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔مظاہرین نے ایک پولیس گاڑی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفاتر کو آگ لگا دی، جبکہ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ڈنڈوں کا استعمال کیا۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 5 ہلاکتوں کی اطلاع ملی ہے اور زخمیوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ لداخ کو خصوصی درجہ دیا جائے تاکہ قبائلی علاقوں کے تحفظ کے لیے منتخب مقامی ادارے تشکیل دیے جا سکیں۔یہ مظاہرے معروف کارکن سونم وانگچک کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منظم کیے گئے تھے، جو بھوک ہڑتال پر تھے اور لداخ کے لیے یا تو مکمل وفاقی ریاستی درجہ یا قبائلی برادریوں اور اس زمین کے لیے آئینی تحفظات کا مطالبہ کر رہے تھے۔

نئی دہلی سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مظاہرین کو ’ان کی اشتعال انگیز تقاریر نے بھڑکایا اور اس بات کی نشاندہی کی کہ اس کی حکمرانی پر بات چیت جاری ہے۔مودی کی حکومت نے 2019 میں لداخ کو مقبوضہ کشمیر سے الگ کر کے دونوں پر براہ راست حکومت نافذ کر دی تھی جبکہ نئی دہلی نے ابھی تک اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کیا کہ لداخ کو بھارت کے آئین کے ’چھٹے شیڈول‘ میں شامل کرے، جو مقامی لوگوں کو اپنے قوانین اور پالیسیاں بنانے کی اجازت دیتا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ لداخ کے لوگ محسوس کرتے ہیں،ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے اور وہ ناراض ہیں۔