پاکستان میں بزرگ افراد کی نظرانداز زندگی

DW ڈی ڈبلیو بدھ 1 اکتوبر 2025 20:40

پاکستان میں بزرگ افراد کی نظرانداز زندگی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اکتوبر 2025ء) پاکستان میں درجنوں سرکاری و غیر سرکاری اولڈ ہومز قائم ہیں، مگر وہاں جگہ اور سہو لیات محدود ہیں۔ حکومتی ادارے عموماً بیمار یا کمزور بزرگوں کو داخل ہی نہیں کرتے، جبکہ نجی مراکز زیادہ تر عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔
معمر افراد کی دیکھ بھال کے ادارے
‌بزرگ خواتین کی آزادی کہاں ہے؟

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں اس وقت بزرگ شہریوں کی تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ سے ایک کروڑ 70 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور 2050 تک یہ تعداد چار کروڑ سے تجاوز کر جانے کی توقع ہے۔

اگر فوری پالیسی نہ بنائی گئی تو صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو عالمی ماڈلز کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسا نظام اپنانا ہوگا جہاں بزرگوں کو مالی امداد، طبی سہولیات اور باعزت رہائش میسر ہو۔

(جاری ہے)

تنہائی کی قیمت

لاہور کے 82 سالہ رفیق احمد جرمنی میں برسوں محنت کرتے رہے مگر آج ''باغبان‘‘ نامی پناہ گاہ میں رہنے پر مجبور ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ''رشتوں کی کوئی قدر نہیں رہی۔ جیب خالی ہو تو انسان بوجھ بن جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنا موبائل تک پھینک دیا تاکہ بچوں سے کوئی رشتہ باقی نہ رہے۔

یہ المیہ صرف رفیق احمد تک محدود نہیں۔ 55 سالہ نرگس گزشتہ پانچ برسوں سے راولپنڈی کی ایک پناہ گاہ میں مقیم ہیں۔ ان کے شوہر اور تینوں بچے حیات ہیں، مگر انہوں نے نرگس کو گھر سے نکال دیا۔

نرگس بتاتی ہیں کہ بچے ملنے آتے ضرورہیں، لیکن ساتھ لے جانے سے انکار کر دیتے ہیں اور وجہ صرف یہ ہے کہ ''انہیں ماں کی دعائیں چاہیے ہوتی ہیں۔‘‘ راولپنڈی کے غیر سرکاری اولڈ ہومز کے منتظم شوکت حسین کے مطابق، کچھ بزرگوں کو ان کے بچوں نے چھوڑ دیا جبکہ کچھ نے خود رشتے ختم کر دیے۔

اداروں کی تنگ حدود

پنجاب حکومت کے صرف سات اولڈ ہومز ہیں، جن میں تین سے چار سو بزرگوں کے رہائش پذیر ہونے کی گنجائش ہے اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی سہولیات محدود ہیں۔

سینکڑوں غیر سرکاری ادارے موجود ہیں، مگر ان کے وسائل بھی ناکافی ہیں۔ راولپنڈی کے ایک سرکاری افسر نے اعتراف کیا کہ ''ہم صرف صحت مند بزرگ رکھتے ہیں، بیماروں کو ایدھی ہوم بھیج دیا جاتا ہے‘‘، یعنی جو بزرگ سب سے زیادہ محتاج ہوتے ہیں، وہی سب سے زیادہ نظرانداز کیے جاتے ہیں۔

بدلتے رویے، بگڑتا معاشرہ

65 سالہ محمد اشرف کا، جو گزشتہ پانچ سال سے اسلام آباد میں ایدھی فاؤنڈیشن میں بے سہارا افراد کی خدمت کر رہے ہیں، کہنا ہے کہ ہم معاشرتی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

ان کے مطابق، دنیا ہماری روایات اور اسلامی تعلیمات سے فائدہ اٹھا رہی ہے، جبکہ ہم مغربی اقدار کے پیچھے چل کر اپنی شناخت کھو رہے ہیں۔ وہ اخلاقی و سماجی زوال کی بڑی وجوہات میں خواتین کی بچوں کی تربیت میں کوتاہی اور حکومت کی جانب سے موثر سماجی تحفظ کی ناکامی کو قرار دیتے ہیں۔

بڑھاپے کا بڑھتا بوجھ

پبلک پالیسی کے ماہر عامر جہانگیر نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں بزرگوں کی دیکھ بھال کی ضرورت تیزی سے بڑھ رہی ہے، جبکہ موجودہ پناہ گاہیں عارضی حل ہیں۔

نہ معیار ہے نہ وسائل۔ اصل ضرورت ایک باوقار اور مربوط نظام کی ہے۔عامر جہانگیر نے سلور اکانومی منصوبے کی ضرورت پر زور دیا، جس میں گھریلو و کمیونٹی سطح پر نگہداشت، جیریاٹرک صحت، عمر دوست رہائش و ٹرانسپورٹ، اور بزرگوں کے تحفظات شامل ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی حکومتیں عمر رسیدہ آبادی اور شہری کاری کے تناظر میں سماجی تحفظ کی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہی ہیں۔

خاموش بحران کا حل

’’نجات کیئر ہوم‘‘ کے بانی اظہر تنویر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ دنیا بھر میں لاوارث بزرگوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور اس حوالے سے برطانیہ کا ماڈل سب سے موثر ہے، جہاں حکومت نجی شعبے کے ذریعے کیئر ہومز قائم کرواتی ہے۔اظہر تنویر کے مطابق، حکومت نجی اداروں کے ساتھ مل کر رجسٹرڈ کیئر ہومز قائم کرے، جہاں بزرگ اپنی مرضی سے داخل ہو سکیں اور ان اداروں کو اسپتالوں کی طرح فنڈز فراہم کئے جائیں۔


فی الحال حقیقت یہ ہے کہ چند نجی کیئر ہومز یا تو مہنگے ہیں یا غیر معیاری۔ لاکھوں بزرگ محرومی اور تنہائی میں ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں یہ بحران دوگنا ہو جائے گا۔ بزرگ ہمارا ورثہ اور تجربہ ہیں۔ ان کی عزت و دیکھ بھال دراصل ہماری اپنی شناخت کی حفاظت ہے۔ اگر ہم نے ان کا سہارا نہ بنایا تو آنے والی نسلیں بھی سہارا ڈھونڈتی رہ جائیں گی۔

ادارت: افسر اعوان