اسرائیل اور حماس کے مذاکرات آج، ٹرمپ کو مثبت نتائج کی امید

DW ڈی ڈبلیو پیر 6 اکتوبر 2025 14:20

اسرائیل اور حماس کے مذاکرات آج، ٹرمپ کو مثبت نتائج کی امید

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اکتوبر 2025ء) حماس کا وفد اس گروپ کے جلاوطن سربراہ خلیل الحیہ کی قیادت میں اتوار کو مصر پہنچ چکا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا نامزد کردہ وفد آج پیر کو وہاں پہنچ رہا پے۔

الحیہ گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی حملے میں بال بال بچے تھے۔ حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں مذاکرات شروع ہونے سے پہلے الحیہ پیر کی صبح قاہرہ میں مصری اور قطری ثالثوں سے ملاقات کریں گے۔

حماس اور اسرائیل دونوں نے لڑائی ختم کرنے اور غزہ میں قید یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے لیے ٹرمپ کی تجویز پر مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

(جاری ہے)

حماس اور اسرائیل کی امریکہ اور قطر کے نمائندوں کے ساتھ جنگ بندی پر بات چیت اس تنازعے کو روکنے کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ جامع کوشش سمجھی جا رہی ہے۔

مذاکرات کا مقصد ''عارضی جنگ بندی کی تاریخ طے کرنا‘‘ ہے، اور امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے حالات بنانا ہے، جس کے تحت غزہ میں قید 47 یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، بدلے میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہو گی۔

ٹرمپ پرامید

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں ''حماس اور دنیا بھر کے اتحادیوں بشمول عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ مثبت بات چیت‘‘ کو سراہا۔

ٹرمپ نے لکھا، ''مجھے بتایا گیا ہے کہ پہلا مرحلہ اس ہفتے مکمل ہونا چاہیے، اور میں سب سے کہہ رہا ہوں کہ تیزی سے آگے بڑھیں۔‘‘

صدر ٹرمپ نے اتوار کے روز میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں قیدیوں کی رہائی کی تاریخ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا، ''ہماری کچھ بہت اچھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ دنیا کے ممالک، اسرائیل کے ارد گرد بہت سے ممالک واضح طور پر، مسلم، عرب اور بہت سے دوسرے حماس کے ساتھ بہت اچھی ملاقاتیں کر چکے ہیں اور لگتا ہے کہ یہ (طریقہ) کام کر رہا ہے۔

‘‘

ٹرمپ نے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مدد کے لیے دو نمائندے بھیجے ہیں، جن میں ان کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر شامل ہیں۔

نیتن یاہو پر دباؤ

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امید ظاہر کی کہ یرغمالیوں کو چند دنوں میں رہا کیا جا سکتا ہے۔

اندرون ملک نیتن یاہو پر جنگ کو ختم کرنے اور یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

وہ عوام کے بڑھتے دباؤ اور اپنی سخت گیر اتحادی جماعتوں کے مطالبات کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں، جن کا اصرار ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی مہم کسی صورت نہیں رکنا چاہیے۔

انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزالِل اسموٹریچ نے ایکس پر کہا کہ غزہ پر حملے روکنا ایک ''سنگین غلطی‘‘ ہو گی۔ انہوں نے اور وزیر دفاع ایتمار بن گویر نے دھمکی دی ہے کہ اگر غزہ کی جنگ ختم ہوئی، تو وہ نیتن یاہو کی حکومت گرا دیں گے۔

لیکن اپوزیشن لیڈر یائر لیپیڈ، جو اعتدال پسند یش عتید پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے اقدام کو کامیاب بنانے کے لیے سیاسی تعاون فراہم کیا جائے گا اور ''ہم انہیں معاہدہ سبوتاژ کرنے نہیں دیں گے۔‘‘

اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو فوج ''غزہ میں لڑائی پر واپس آ جائے گی‘‘ کیونکہ ''عملی صورت حال بدل چکی ہے۔

‘‘

ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کو اسرائیل پر زور دیا کہ وہ مصر میں مذاکرات سے پہلے غزہ پر بمباری بند کرے۔ انہوں نے کہا، ''آپ بمباری کے دوران یرغمالیوں کو رہا نہیں کرا سکتے، اس لیے حملے رکنا ہوں گے۔‘‘

دریں اثنا جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول نے پیر کے روز کہا کہ غزہ کی جنگ ختم کرانے کے لیے جاری کوششیں اب تک کی سب سے امید افزا کاوشیں ہیں۔

انہوں نے جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بتایا، ''دو سال میں پہلی بار یہ صرف جنگ بندی کی بات نہیں ہے بلکہ ایک قابل عمل سیاسی حل کی بات ہے۔ اسرائیلی، عرب اور فلسطینی اب یہ سوچ رہے ہیں کہ غزہ پٹی میں آگے معاملات کس طرح چل سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: مقبول ملک، رابعہ بگٹی