غیر محفوظ دودھ کے خلاف کارروائی، 26 کروڑ 70 لاکھ روپے جرمانے کئے گئے،پنجاب فوڈ اتھارٹی

اتوار 12 اکتوبر 2025 15:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 اکتوبر2025ء) غیر محفوظ دودھ کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے دوران پنجاب فوڈ اتھارٹی (پی ایف اے) نے یکم جنوری سے صوبے بھر میں 5 لاکھ سے زائد ڈیری پوائنٹس، دودھ کی دکانوں اور کلیکشن سینٹروں کا معائنہ کیا ہے۔پی ایف اے کے ترجمان نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ اس دوران دودھ میں ملاوٹ اور آلودگی کے مرتکب دکانداروں پر مجموعی طور پر 26 کروڑ 70 لاکھ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے۔

پاکستان سالانہ تقریباً 70 ارب لیٹر دودھ پیدا کرتا ہے، تاہم ملک کے 12 کروڑ 40 لاکھ صارفین کی اکثریت اب بھی محفوظ دودھ تک رسائی سے محروم ہے، کیونکہ کل پیداوار کا 10 فیصد سے بھی کم دودھ مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے پیسچرائز کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں 90 فیصد سے زیادہ دودھ روایتی دودھ فروشوں کے ذریعے کھلے دودھ کی صورت میں فروخت ہوتا ہے، جس پر معیار کی نگرانی نہ ہونے کے برابر ہے۔

(جاری ہے)

وفاقی وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر محمد جنید نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ پیسچرائزیشن، جس میں دودھ کو مخصوص درجہ حرارت پر کچھ وقت تک گرم کیا جاتا ہے تاکہ نقصان دہ بیکٹیریا ختم ہو جائیں، عوامی صحت کے لیے نہایت ضروری عمل ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پیسچرائزیشن کی صنعت بہت چھوٹی ہے جو تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، خاص طور پر بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پروسیسنگ پلانٹس کے قیام پر زیادہ لاگت اور کولڈ چین انفراسٹرکچر کی کمی نے اس صنعت کی ترقی کو سست کر دیا ہے۔ڈاکٹر جنید نے بتایا کہ مناسب ٹھنڈک اور نقل و حمل کے نظام نہ ہونے کی وجہ سے کچا دودھ جلد خراب ہو جاتا ہے، جس کے باعث بہت سے دلال خراب ہونے سے بچانے کے لیے نقصان دہ اشیا جیسے برف، سوڈا یا یہاں تک کہ فارملین بھی ملا دیتے ہیں۔

پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) کے سی ای او ڈاکٹر شہزاد امین نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو میں کہا کہ پراسیسڈ دودھ ملک کی مجموعی کھپت کا 10 فیصد سے بھی کم ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ غیر رسمی ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فارمل دودھ کی مارکیٹ نہ صرف چھوٹی ہے بلکہ چند بڑی کمپنیوں تک محدود ہے۔لاہور کے معروف ماہرِ غذائیت ڈاکٹر علی حیدر نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ بغیر پیسچرائز کیے گئے دودھ میں بیکٹیریا کی زیادہ مقدار مختلف نظامِ انہضام کی خرابیوں اور الرجی کا باعث بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدہضمی اور الرجی سے جڑی بہت سی بیماریاں پیسچرائزڈ دودھ کے استعمال سے روکی جا سکتی ہیں۔ڈاکٹر علی کے مطابق عوامی رویے بھی پیک شدہ دودھ کے فروغ میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ عموماً کھلے دودھ کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ابالنے پر اس کی سطح پر ملائی بنتی ہے، جسے وہ تازگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ پیک شدہ یو ایچ ٹی دودھ میں ہوموجنائزیشن کے باعث ملائی نہیں بنتی، اس لیے کچھ صارفین اسے چائے یا دہی کے لیے کم لذیذ سمجھتے ہیں۔

ماہرین اور صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں محفوظ دودھ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پیسچرائزیشن پلانٹس کا دائرہ وسیع کرنا، کولڈ چین نظام کو مضبوط بنانا اور عوام میں پراسیسڈ دودھ کے صحت بخش فوائد سے متعلق آگاہی مہمات چلانا ناگزیر ہے۔