لائف فار گارڈین اور پاکستان پارٹنر شپ انیشی ایٹو کے اشتراک سے قدرتی آفات سے آگاہی اور بچائوکے عالمی دن کے موقع پر سیمینار

پیر 13 اکتوبر 2025 18:22

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 اکتوبر2025ء) قدرتی آفات سے آگاہی اور بچائوکے عالمی دن کے موقع پر ڈان باسکو ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ لاہور میں لائف فار گارڈین اور پاکستان پارٹنرشپ انیشی ایٹو (پی پی آئی) کے باہمی اشتراک سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ مہناز جاوید (لائف فار گارڈین) نے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مقصد آفات سے بچاؤ، کمیونٹی کی تیاری اور پائیدار مزاحمت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘‘Funds Resilience, Not Disaster’’ کے تحت وسائل کو ہنگامی ردِعمل کے بجائے تیاری اور روک تھام پر خرچ کیا جانا چاہیے۔رکن پنجاب اسمبلی و سابق صوبائی وزیراعجاز عالم آگسٹین نے کہا کہ آج کے دور میں ہمیں اپنے تعلیمی اداروں اور سوسائٹی کو ایک دوسرے کی جان بچانے کے حوالے سے تربیت دینا ہوگی۔

(جاری ہے)

تباہیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں کیونکہ درختوں کے کاٹنے والوں سے لگانے والوں کی تعداد کم ہے۔

حالیہ سیلاب میں پاک فوج، پی ڈی ایم اے اور ریسکیو 1122 کا کردار قابلِ تحسین رہا تاہم ہمیں انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومتوں کو دس سالہ پلاننگ کرنا ہوگی تاکہ مستقبل میں کسی بھی مصیبت کا بہتر مقابلہ کیا جا سکے۔ایڈیشنل ڈی جی ای پی اے نواز مانک نے کہا کہ ہم سب کو فطرت کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ مصنوعی زندگی نے بے پناہ مسائل پیدا کیے ہیں۔

انڈسٹریز میں ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب لازمی بنانا ہوگی، شجرکاری مہم پر زور دینا ہوگا، ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا اور ایک گاڑی پر سوار ہونے کے بجائے ایک بس میں اجتماعی سفر کو ترجیح دینی ہوگی تاکہ آلودگی اور دباؤ میں کمی لائی جا سکے۔ درِشوار (جنرل سیکرٹری PCAN) نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور آفات سے بچاؤ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

ہمیں مقامی سطح پر استعداد کار بڑھانے اور کمیونٹی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ کیتھرین سپنا (سی ٹی ایس ) نے کہا کہ عورتیں اور بچے بحرانوں کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کو بااختیار بنانا اور قیادت کے مواقع دینا حقیقی مزاحمت کی بنیاد ہے۔ کامران چوہدری (سینئر صحافی) نے کہا کہ ذمہ دارانہ صحافت زندگیاں بچا سکتی ہے۔ میڈیا کو آفات سے بچاؤ، تیاری اور آگاہی کے پیغام کو عام کرنا چاہیے۔

فنیاز جان (صوبائی ڈی آر آر کوآرڈینیٹر) نے کہا کہ حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے درمیان اشتراک آفات میں کمی کے لیے ناگزیر ہے۔ عوامی و نجی شراکت ہی اصل مزاحمت کو ممکن بناتی ہے۔ حیدر علی (ریسکیو 1122) نے بتایا کہ ابھی تک لائف سیور پروگرام کے تحت 2 کروڑ سے زائد افراد کو تربیت دی جا چکی ہے۔ روزانہ اوسطاً 1000 سے زائد ایمرجنسی کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن کے لیے ایمبولینس سروس 7 منٹ اور موٹر بائیک یونٹس 4 منٹ میں موقع پر پہنچ جاتے ہیں تاہم کمیونٹی کی کیپسٹی بلڈنگ پر زور دینا ہوگا تاکہ کوء بھی قیمتی جان ملکر بچاء جا سکے۔

حاضرین نے ریسکیو ٹیموں اور جان بچانے والے اداروں کو زبردست خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔ ساجد کرسٹوفر (ایچ ایف او) اور یوسف بنجامن (Dignity First) نے اپنے خطاب میں کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی، دریاؤں کا کٹاؤ اور جنگلات کی کمی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ ہمیں اپنے جنگلات کو بحال کرنا ہوگا اور جدید سٹیلائٹ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بروقت اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ آفات سے نمٹنا صرف ردِعمل نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے جو پہلے دن سے شروع ہوتا ہے۔

سیمینار کے اختتام پر اعجاز عالم آگسٹین نے شرکاء کو یادگاری شیلڈز سے نوازا جبکہ تمام شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ایک محفوظ، مضبوط اور پائیدار پاکستان کے قیام کے لیے مل کر کام کریں گے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے۔ تقریب میں مختلف سماجی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور کمیونٹی نمائندگان کے ہمراہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نیشرکت کی۔