بھارت کے دیوالیہ پن کے قوانین سے مودی حکومت کی معاشی بدانتظامی کو بے نقاب

ہفتہ 18 اکتوبر 2025 21:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 اکتوبر2025ء) بھارت کے 2016کے دیوالیہ پن کے قوانین نے جن کو تجارتی مسائل کو تیز ی سے حل کرنے اور وصولیوں کو بڑھانے کے لیے اصلاحات کے طور پر پیش کیا گیا تھا، مودی حکومت کی معاشی بدانتظامی کو بے نقاب کردیاہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق''دی اکانومسٹ ''نے16 اکتوبر 2025کو اپنی ایک رپورٹ میں کہاہے کہ اس ضابطہ اخلاق نے جزوی کامیابی حاصل کی ہے، تاہم یہ مسائل کے فوری حل اور وصولی کو بڑھانے کے اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔

دیوالیہ پن کے پروگرام میں درج8ہزارفرموں میں سے صرف 60فیصد کے مسائل حل ہوئے جبکہ حیران کن طورپر تین چوتھائی کیسز 270دن کی قانونی مدت سے تجاوز کر گئے اور وصولیوں کا اوسط 32 فیصد تھا جو کہ واجب الادا رقم کا بمشکل ایک تہائی ہے۔

(جاری ہے)

انتظامی نا اہلی اور افسر شاہی کی بے عملی نے اس عمل کو مفلوج کر دیا ہے۔ ایک لاکھ 13ہزار600ڈالرزسے زیادہ ڈیفالٹس کے لیے واضح دفعات کے باوجوددیوالیہ پن کے کیسز میں دو سال لگ سکتے ہیں۔

عدالتی کمرے تنگ اور غیر فعال ہیں جو ٹوٹے ہوئے ایئر کنڈیشننز، ناکافی سیٹوں اور پرانے انفراسٹرکچر سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے انصاف آہستہ اور ناقابل رسائی ہے۔عدالتی نااہلی اس بحران کو مزید سنگین کرتی ہے۔ بہت سی عدالتوں میں صنعتی پیشہ ور افراد کے بجائے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کا عملہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں سست، غلطیوں پر مبنی اور بعض اوقات کرپٹ فیصلے ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے مئی 2025میں جے ایس ڈبلیواسٹیل کو قبضے میں لینے کے فیصلے کو تبدیل کرنے سے طریقہ کار کی کوتاہیاں ظاہر ہوئی ہیں۔عدالتوں میں تکنیکی اور صنعتی مہارت کے فقدان نے دیوالیہ پن کے موثر حل کے خلاف ماحول پیدا کیا ہے۔ 1,900جاری مقدمات میں سے 78فیصد اب 270دن کی قانونی ڈیڈ لائن سے تجاوز کر چکے ہیں جو پچھلے سال کے 68فیصد سے زیادہ ہے، جبکہ پرانی بولی کی شرائط سرمایہ کاری کے حقیقی مواقع کو معاشی طور پر ناقابل عمل بنا دیتی ہیں۔

یہاں تک کہ واضح دستاویزات کے ساتھ رضاکارانہ تصفیے کو بھی تقریبا 4.3 سال لگ جاتے ہیں جن میں سے تقریبا تین سال سرکاری منظوریوں میں ضائع ہو جاتے ہیں،جو بیوروکریٹک رکاوٹوں اور انتظامی نا اہلیوں کو نمایاں کرتے ہیں۔حکومتی کارروائیاں تاخیر کو بڑھا دیتی ہیں کیونکہ منظوری اور طریقہ کار کی رکاوٹیں کاروبار کو بروقت بند ہونے سے روکتی ہیں۔

اس کا نتیجہ سست رفتاری کا بحران ہے جہاں فرمیں غیر یقینی کی کیفیت میں رہتی ہیں، سرمایہ کار منحرف ہو جاتے ہیں اوربھارت کی عالمی اقتصادی ساکھ ختم ہو جاتی ہے۔دی اکانومسٹ کا اداریہ دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہے کہ بھارت کے دیوالیہ پن کے قوانین ملک کو پریشان کر رہے ہیں۔اقتصادی ترقی یا کارپوریٹ کارکردگی کو فروغ دینا تو بہت دور مودی حکومت نے عدالتی تاخیر، نوکر شاہی کی سستی، طریقہ کار کی خرابیوں اور نظامی نا اہلیوں سے دوچار نظام کو فروغ دیا ہے جس سے موثر حکومت کرنے میں اس کی ناکامی بے نقاب ہوئی ہے اور بھارت کے معاشی مستقبل کو سنبھالنے کی اس کی صلاحیت پر شکوک وشبہات پیدا ہوئے ہیں۔