کراچی/حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اکتوبر2025ء) صوبائی محکمہ صحت کے مطابق رواں سال
سندھ میں
ڈینگی کے مجموعی کیسز کی تعداد 819 ہے، جبکہ
کراچی کے 3 بڑے ہسپتالوں اور سرکاری شعبے کی لیبارٹری(اور اس کی حیدرآباد میں قائم شاخوں)سے حاصل کردہ اعداد و شمار ایک وبا جیسی صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں، جن کے مطابق صرف 6 ہفتوں کے مختصر عرصے میں اصل تعداد 12 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے جولائی میں
ڈینگی سے ایک ہلاکت کی تصدیق کی تھی، لیکن آزاد ذرائع کے مطابق حیدرآباد میں
ڈینگی کے باعث 4 افراد جن میں ایک کم عمر لڑکی، دو مرد اور ایک بزرگ خاتون، اور
کراچی میں 2 افراد
جاں بحق ہوئے ہیں۔حکومت اس بڑے ڈیٹا کے فرق پر خاموش ہے،
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم ای)کے ایک سینئر عہدیدار نے سرکاری اعداد و شمار کی ساکھ پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعداد و شمار زمینی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے۔
(جاری ہے)
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال
کراچی ڈویژن اور حیدرآباد ضلع میں
ڈینگی کے تصدیق شدہ کیسز بالترتیب 579 اور 119 رہے۔تاہم،
کراچی کے 3 ہسپتالوں، انڈس اسپتال، لیاقت نیشنل اسپتال اور
سندھ انفیکشس ڈیزیز ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹرسے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق یکم ستمبر سے 16 اکتوبر تک
ڈینگی کے کل 2 ہزار 972 کیسز رپورٹ ہوئے۔
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹرنے جولائی سے اب تک ایک ہزار 62 کیسز
ریکارڈ کیے۔آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں بھی صورتحال مختلف نہیں، جہاں ذرائع کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال
ڈینگی کے کیسز میں نمایاں اضافہ اور چند اموات رپورٹ ہوئیں۔حیدرآباد میں صورت حال نہایت تشویش ناک ہے، کیوں کہ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسزجامشورو کی ڈائگناسٹک اینڈ ریسرچ لیبارٹری اور اس کی شاخوں کے اعداد و شمار کے مطابق یکم ستمبر سے 14 اکتوبر تک 9 ہزار 75 تصدیق شدہ
ڈینگی کیسز رپورٹ ہوئے۔
پی ایم اے
سندھ کے صدر
ڈاکٹر بشیر احمد خاصخیلی کے مطابق زمینی صورتحال سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔انہوں نے کہا کہ نجی کلینکس، جو ہر گلی محلے میں کام کر رہے ہیں، ان سے کوئی باضابطہ فیڈبیک لینے کا نظام موجود نہیں، نہ ہی نجی ہسپتالوں، اتائیوں یا حکیموں سے کوئی اعداد و شمار حاصل کیے جاتے ہیں، بہت سے لوگ مالی مسائل کے باعث لیبارٹری ٹیسٹ بھی نہیں کرواتے۔
آغا خان ہسپتال کے پروفیسر آف انفیکشس ڈیزیزز
ڈاکٹر فیصل محمود نے بھی
ڈینگی کیسز میں اضافے کی تصدیق کی اور کہا کہ اکتوبر کے آخر میں
ڈینگی کیسز کا بڑھنا ایک معمول کا موسمی رجحان ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ
ڈینگی کے کیسز ہر سال مختلف ہوتے ہیں، یہ ایک چکر کا پیٹرن ہے جو ہم گزشتہ دہائی سے دیکھ رہے ہیں، اس کے پیچھے وجوہات میں
موسم کے پیٹرن اور وائرس کی اقسام میں تبدیلی شامل ہیں، اس سال اضافے کی خاص وجہ کہنا مشکل ہے، تاہم
میرا خیال ہے کہ (بارشوں اور) سیلابوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر فیصل محمود نے بیماری کی شدت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، البتہ کہا کہ شہر اس وقت
ڈینگی سیزن کے عروج پر ہے۔لیاقت یونیورسٹی کے پروفیسر
ڈاکٹر عمران شیخ نے کہا کہ جون اور جولائی میں بھی کیسز رپورٹ ہوئے تھے مگر ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، ستمبر سے کیسز میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جو ابھی تک کم ہونے کے آثار نہیں دکھا رہا۔محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال صوبے بھر میں ملیریا کے 2 لاکھ 15 ہزار 270 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جب کہ
کراچی میں 1 جنوری سے 15 اکتوبر تک 3 ہزار 72 کیسز سامنے آئے۔
اعداد و شمار کے مطابق ملیریا سے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں جامشورو 22 ہزار 293 ، لاڑکانہ 19 ہزار 835 ، جیکب آباد 17 ہزار 170، بدین 19 ہزار 478 ، میرپورخاص 12 ہزار 699،
شہید بے نظیرآباد 12 ہزار 467 ، ٹھٹھہ 10 ہزار 995 ، ٹنڈو محمد خان 10 ہزار 579 ، خیرپور 9 ہزار 967، سانگھڑ 7 ہزار 409، حیدرآباد 7 ہزار 54، ٹنڈو الہیار 6 ہزار 702 ، مٹیاری 6 ہزار 64، شکارپور 6 ہزار 875، تھرپارکر 4 ہزار 297، کشمور 4 ہزار 292، قمبر شہدادکوٹ 3 ہزار 866، سکھر 4 ہزار 187، نوشہروفیروز 3 ہزار 563، گھوٹکی 2 ہزار 867 اور عمرکوٹ میں 2 ہزار 327 کیسز شامل ہیں۔
تاہم، مختلف نجی و سرکاری ہسپتالوں سے حاصل کردہ معلومات ان سرکاری اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتیں۔انڈس ہسپتال، ایس آئی ڈی ایچ آر سی، ایل این ایچ اور جے پی ایم سی سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1 ستمبر سے 16 اکتوبر کے درمیان صرف
کراچی میں ایک ہزار 800 سے زائد ملیریا کیسز رپورٹ ہوئے
۔ڈاکٹر فیصل محمود کے مطابق، اس سال ملیریا کے کیسز معمول سے کم از کم ایک ماہ پہلے رپورٹ ہونا شروع ہو گئے تھے۔
ماہرین صحت کے مطابق
ڈینگی کیسز میں اضافے کی بڑی وجوہات میں ناقص فومیگیشن اور
بارش کے بعد
پانی کی نکاسی میں تاخیر شامل ہیں
۔ڈاکٹر مرزا علی اظہر (پی ایم ای)نے کہا کہ اگر
بارش کا
پانی جمع رہے تو وہ مچھروں کی افزائش کا مرکز بن جاتا ہے، پورا
پانی نکالا نہیں جاتا اور کئی علاقوں میں تالاب جیسی شکل میں کھڑا رہتا ہے جو مچھروں کے لیے مثالی جگہ ہے۔
ڈاکٹر بشیر احمد خاصخیلی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مچھر سے پھیلنے والی بیماریوں کے زیادہ تر کیسز مثر اقدامات سے روکے جا سکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب ناقص نکاسی و سیوریج نظام کا نتیجہ ہے، ہر جگہ گندا
پانی، سیوریج کے جوہڑ اور کچرے کے ڈھیر موجود ہیں، جو جراثیم اور کیڑوں کی افزائش کے مراکز ہیں، حکومت کی طرف سے مثر فومیگیشن مہمات نہ ہونے کے برابر ہیںتاہم، صوبائی وزیر صحت
ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے علاقوں کی صفائی کا خیال رکھیں اور
پانی کے جوہڑ نہ بننے دیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت بیماری کے پھیلا ئوکو روکنے کے لیے جامع اقدامات کر رہی ہے، انسدادِ
ڈینگی مہمات تیز کر دی گئی ہیں۔صوبائی وزیر نے کہا کہ
کراچی سمیت تمام ڈویژنوں میں روزانہ کی بنیاد پر اسپرے اور فومیگیشن کی جا رہی ہے، ہسپتالوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ
ڈینگی کے مریضوں کو خصوصی طبی توجہ اور فوری
علاج فراہم کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ صحت کی ٹیمیں تمام اضلاع میں مشتبہ اور تصدیق شدہ کیسز پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر فوری تدارکی اور حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔