انڈونیشیا،دونوں صدارتی امیدواروں کے کامیابی کے متضاد دعوے

جمعرات 10 جولائی 2014 07:08

جکارتہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔9جولائی۔2014ء )انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات میں دونوں امیدوار اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہے ہیں، جس کے بعد دنیا کی اس تیسرے بڑے جمہوری ملک میں نئے سربراہِ مملکت کے انتخاب کے موضوع پر ایک آئینی لڑائی کے امکانات بڑھتے نظر آتے ہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق انڈونیشیا میں بدھ کو منعقدہ صدارتی انتخابات کے ایک امیدوار جکارتہ کے گورنر جوکو وِدودو ہیں، جنہوں نے ووٹنگ ختم ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد یہ کہہ دیا کہ وہ یہ انتخابات جیت گئے ہیں۔

اْنہوں نے یہ دعویٰ غیر سرکاری ایجنسیوں کے مرتب کردہ اْن نتائج کی بنیاد پر کیا، جو نوّے فیصد ووٹوں سے زائد ووٹوں کی تیز رفتاری کے ساتھ کی جانے والی سرسری گنتی کے نتیجے میں سامنے آئے تھے۔

(جاری ہے)

یہ نتائج سرکاری نہیں ہیں تاہم جن تین پرائیویٹ ایجنسیوں نے وِدودو کی کامیابی کا اعلان کیا ہے، وہ وہ ہیں، جن کی طرف سے اس سال اپریل میں پارلیمانی انتخابات کے بعد سامنے آنے والی پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئی تھیں۔

وِدودو کو اْن کے حامی انڈونیشیا کا اوباما بھی کہتے ہیں اور اْن کی کامیابی جنوب مشرقی ایشیا کی اس سب سے بڑی معیشت میں ابھرنے والی سیاستدانوں کی ایک نئی نسل کی کامیابی کے مترداف ہو گی، جس سے حکومتی ڈھانچے میں اصلاحات کے وعدے پورے ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ وِدودو نے انڈونیشیا کے تمام شہریوں پر زور دیا ہے کہ ان انتخابات کے ساتھ توقعات وابستہ کرنے والے لوگوں کو مایوس نہیں کیا جانا چاہیے:”ہم تمام انڈونیشی باشندوں سے پْر زور اپیل کرتے ہیں کہ لوگوں کی امنگوں کا احترام کیا جائے اور جو کچھ لوگ چاہتے ہیں، اْسے چیلنج نہ کیا جائے۔

“ تاہم جوکو وِدودو کی خواہش کے برعکس اْن کے حریف امیدوار نے بھی یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ اِن انتخابات کے اصل فاتح وہ ہیں۔ یہ امیدوار ایک دولت مند تاجر اور سابق جنرل پرابووو سوبیانتو ہیں، جو اْس پرانے مقتدر طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں، جسے عشروں کے آمرانہ دور میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔ واضح رہے کہ پرابووو سوبیانتو کو سہارتو کے آمرانہ دور میں قتل عام کے واقعات اور جنگی جرائم کے لیے قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔

ملکی الیکشن کمیشن کی جانب سے آج کے صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان سامنے آنے میں تقریباً دو ہفتے لگ جائیں گے۔ یہ اعلان بائیس جولائی کے لگ بھگ متوقع ہے، جس کے بعد امیدوار چاہیں تو اِن نتائج کے خلاف آئینی عدالت سے رجوع کر سکیں گے جبکہ نیا صدر کہیں یکم اکتوبر کو سربراہِ مملکت کے طور پر اپنی ذمے داریاں سنبھال سکے گا۔انڈونیشیا کی تاریخ کے یہ تیسرے صدارتی انتخابات ہیں اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ان کے نتائج غیر واضح ہیں۔

اس سے پہلے منعقدہ دونوں صدارتی انتخابات میں سْسیلو بمبانگ یْدھویونو نے، جن کی دوسری مدتِ صدارت عنقریب ختم ہو رہی ہے، واضح اکثریت حاصل کی تھی۔اپنی نوعیت کی متنازعہ ترین انتخابی مہم کے دوران امیدواروں اور اْن کے حامیوں کی جانب سے ایک دوسرے پر کافی زیادہ کیچڑ اچھالا جاتا رہا۔ ان انتخابات کے موقع پر ملک بھر میں پولیس کے ڈہائی لاکھ اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔