امریکا میں سرکردہ مسلم شخصیات کی بھی جاسوسی کئے جا نے کا انکشا ف، انٹیلی جنس اداروں نے کم از کم پانچ نمایاں امریکی مسلم رہنماوٴں کی جاسوسی کی اور ان کی ای میلز کو خفیہ طور پر اسکین کیا، آ ن لائن میگزین کا دعو ی ،جرمنی نے اپنے خفیہ اداریکے ایک ملازم کو امریکا کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ، برلن میں تعینات امریکی سفیر جان ایمرسن کی بھی وزا رت خا رجہ طلب

جمعہ 11 جولائی 2014 05:13

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جولائی۔2014ء) امریکا میں سرکردہ مسلم شخصیات کی بھی جاسوسی کئے جا نے کا انکشا ف ۔ اس دوران مختلف انٹیلیجنس اداروں نے کم از کم پانچ نمایاں امریکی مسلم رہنماوٴں کی جاسوسی کی اور ان کی ای میلز کو خفیہ طور پر اسکین کیا۔ایک آ ن لائن میگزین کے مطابق امریکی معاشرے میں نمایاں حیثیت کے حامل مقامی مسلم رہنماوٴں کی جس خفیہ حکومتی پروگرام کے تحت جاسوسی کی گئی، اس کا مقصد دراصل غیر ملکی دہشت گردوں کی ٹوہ لگانا اور امریکا کی قومی سلامتی کو درپیش دیگر خطرات کی نشاندہی کرنا ہے۔

امریکی آ ن لائن میگزین دی انٹر سیپٹ میں شائع ہونے والی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن امریکی مسلمانوں کی یقینی طور پر جاسوی کی گئی، ان میں سے ایک وکیل ہے، دوسرا ریپبلکن پارٹی کا ایک نمایاں سیاسی کارکن اور تیسرا ایک یونیورسٹی پروفیسر جبکہ باقی دو شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن ہیں۔

(جاری ہے)

جرمنی نے اپنی ایک انٹیلیجنس ایجنسی کے ایک ملازم کو امریکا کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔

وزارتِ خارجہ نے وضاحت کے لیے برلن میں تعینات امریکی سفیر جان ایمرسن کو بھی طلب کیا۔

’انٹرسیپٹ‘ آ ن لائن میگزین معروف امریکی صحافی گلین گرین والڈ کی صحافتی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس جریدے نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی NSA کے اہلکاروں نے ان معروف امریکی مسلم شخصیات کی الیکٹرانک جاسوسی کی حالانکہ یہ پانچوں افراد نہ صرف اپنے کسی بھی طرح کی دہشت گردی یا جاسوسی میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں بلکہ باقاعدہ طور پر ان کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے کبھی کوئی الزامات بھی عائد نہیں کیے گئے۔

اس رپورٹ میں یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آیا امریکی حکومت نے اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے ان امریکی شہریوں کی جاسوسی سے قبل کسی طرح کی کوئی باقاعدہ قانونی اجازت حاصل کی تھی۔جریدے کے مطابق اس نے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق کنٹریکٹر اور اس وقت روس میں پناہ گزین امریکی شہری ایڈورڈ سنوڈن سے حاصل ہونے والی خفیہ دستاویزات کو بنیاد بنا کر اپنے طور پر تین ماہ تک چھان بین کی۔

اس چھان بین کا نتیجہ اس حقیقت کی صورت میں نکلا کہ NSA کو امریکی شہریوں کے خلاف جاسوسی کی حکومتی اجازت دینے کے سرکاری عمل میں جھول پائے جاتے ہیں اور حکومت ایسے فیصلے بڑی فراخدلی سے کرتی ہے۔

اس کے علاوہ ’انٹرسیپٹ‘ کی اسی صحافتی چھان بین سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ خفیہ اداروں کے کارکنوں کی ٹریننگ کے لیے حکومت نے جو تربیتی مواد تیار کر رکھا ہے، اس میں سے ’کچھ ٹریننگ میٹریل میں مسلمانوں کے خلاف نازیبا بات کہی گئی ہے یا نامناسب انداز‘ اختیار کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد این ایس اے اور امریکی محکمہء انصاف نے ایک مشترکہ بیان میں تردید کی کہ سرگرم امریکی شخصیات کو حکومت پر تنقید کی وجہ سے ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس بیان میں مخصوص واقعات کو انفرادی طور پر زیر بحث لائے بغیر یہ کہا گیا کہ امریکی شہریوں کی ای میلز کی نگرانی اسی وقت کی جاتی ہے جب اس کی کوئی مناسب وجہ ہو۔

اسی دوران واشنگٹں میں وائٹ ہاوٴس نے قومی سلامتی کی ذمہ دار ملکی ایجنسیوں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اپنے تربیتی پروگراموں اور پالیسی کتابچوں کا ’انٹرسیپٹ‘ کی رپورٹ میں کیے گئے دعوے کی روشنی میں نئے سرے سے جائزہ لیں۔

اس میگزین نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 2005 میں تیار کی گئی ایک سرکاری تربیتی دستاویز میں ’نازیبا مسلم مخالف‘ زبان استعمال کی گئی تھی۔اس آ ن لائن میگزین کے مطابق FBI اور NSA نے جن سرکردہ امریکی مسلم شخصیات کی جاسوسی کی، ان میں ماہر قانون عاصم غفور، ریپبلکن سیاسی کارکن فیصل گِل، پروفیسر ہوشانگ امیر احمدی، شہری حقوق کے لیے سرگرم آغا سعید اور ایک مسلم سول رائٹس گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہاد عود شامل ہیں۔ رپورٹ میں ان تمام شخصیات نے اس بارے میں سوال اٹھائے ہیں کہ امریکی خفیہ اداروں نے ان کی الیکٹرانک جاسوسی کیوں اور کن بنیادوں پر کی۔

متعلقہ عنوان :