”چڑیا پھُر سے اڑ گئی“،نجم سیٹھی پی سی بی چیئرمین کے عہدہ سے محروم،نئے سیٹ اپ میں گورننگ بورڈ رکنیت بھی خطرہ میں پڑگئی،فیصلہ آج ہونے کا امکان،جسٹس جمشید کو وزیراعظم نے چیئرمین او رچیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیا ہے،اٹارنی جنرل،سپریم کورٹ کا وزیراعظم کی طرف سے نوٹیفکیشن کے اجراء پر برہمی کا اظہار،عدالتی حکم کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ختم نہیں کیا جاسکتا‘ کیوں نہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم بحال کردیا جائے اور نجم سیٹھی کوچیئرمین بورڈ بنانے کا آرڈر واپس لے لیا جائے‘عدالت

جمعہ 11 جولائی 2014 05:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جولائی۔2014ء)چیئرمین کرکٹ بورڈ کا عہدہ کھونے کے بعد نجم سیٹھی کی نئے سیٹ اپ میں گورننگ بورڈ رکنیت بھی خطرے میں پڑگئی‘ فیصلہ (آج) جمعہ کو صبح 9 بجے ہوگا‘ذکااشرف کے بحال ہونے اور نجم سیٹھی کی رخصتی کا قوی امکان پیدا ہوگیا ہے،سپریم کورٹ نے کیس زیر سماعت ہونے کے باوجود کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرنے پرسخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ایسا کرنے کی مجاز نہ تھی‘ عدالتی حکم کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ختم نہیں کیا جاسکتا‘ کیوں نہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم بحال کردیا جائے اور نجم سیٹھی کوچیئرمین بورڈ بنانے کا آرڈر واپس لے لیا جائے‘ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بورڈ قائم رکھنا مگر ایڈہاک ازم کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ نجم سیٹھی کی وکالت عاصمہ نہیں کررہی ہیں لہٰذا اگر نجم سیٹھی کی رکنیت ختم ہوجاتی ہے تو اس سے عاصمہ کو کیا پریشانی ہے جبکہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئے آئین کے تحت عبوری چیئرمین اور چیف الیکشن کمشنر کیلئے جسٹس (ر) جمشید علی خان کو تعینات کردیا گیا ہے اور وزیراعظم نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے نجم سیٹھی اور اقبال کو بورڈ کا ممبر نامزد کردیا ہے‘ تیس روز میں انتخابات کے بعد نئے چیئرمین عہدہ سنبھالیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ رپورٹ جمعرات کو پیش کی۔

جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس میاں ثاقب نثار پر مشتمل دو رکنی خصوصی بنچ نے جمعرات کے روز بین الصوبائی رابطہ وزارت کی درخواست کی سماعت کی۔ اس دوران وزارت بین الصوبائی رابطہ کی جانب سے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ پیش ہوئیں۔ اس دوران چاچائے کرکٹ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس میاں ثاقب نثار نے گذشتہ روز کے واقعہ پر ذکاء اشرف کے وکیل امتیاز صدیقی سے معذرت کی اور کہا کہ پتہ نہیں ان کو روزہ لگا ہوا تھا کہ انہوں نے غصے میں اظہار کردیا۔

بار ممبران سب کو پتہ ہونا چاہئے کہ میں اپنے اس روئیے پر معذرت کرتا ہوں اور معافی کا خواستگار ہوں جس پر وکیل نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ناراض نہیں ہوں۔ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے بتایا کہ جسٹس (ر) جمشید علی شاہ کو چیف الیکشن کمشنر کرکٹ بورڈ تعینات کردیا گیا ہے۔ موجودہ کمیٹی کو سیزڈ کردیا گیا ہے اور 30 روز کے اندر انتخابات کے بعد بورڈ کے نئے ارکان منصب سنبھالیں گے۔

اس حوالے سے ایس آر او جاری کیا ہے جو وزیراعظم نے جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جمشید علی شاہ کو چیف الیکشن کمشنر پی سی بی مقرر کردیا گیا ہے اور یہ فوری طور پر کام شروع کردے گی۔ نئے قانون کے تحت کمیٹی اب کام نہیں کرے گی۔ الیکشن کمشنر کرکٹ بورڈ کے معاملات سنبھال کر 30 روز میں انتخابات کروادیں گے۔ جمشید علی شاہ کو چیئرمین کرکٹ بورڈ بھی مقرر کردیا گیا ہے اور یہ فوری طور پر عہدہ سنبھالیں گے۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میں نے جلد سماعت کیلئے درخواست دی تھی۔ وزیراعظم کی سمری کا پتہ چلا کہ انہوں نے فوری طور پر معاملات پر احکامات جاری کئے۔عدالت نے ملازمین کے وکیل امتیاز ایڈووکیٹ سے کہا کہ آپ اپنے موکل سے پتہ کرلیں کہ وہ نئی صورتحال کوکس طرح سے دیکھتے ہیں۔ کمیٹی صرف روزمرہ کے معاملات دیکھ سکتی ہے۔ لمبے عرصے کیلئے کام نہیں کرسکتی۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ملازمین کا معاملہ قائم مقام چیئرمین پر بھی چھوڑا جاسکتا ہے۔ ذکاء اشرف کو موقع دینا چاہئے کہ وہ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ تمامتر معاملات واضح ہوگئے ہیں۔ سپورٹس بورڈز میں دو افراد بیٹھے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اولمپکس میں شرکت نہیں کرسکا۔ ذکاء اشرف درخواستیں دائر کرتے رہتے ہیں،ان کے کہنے پر ملازمین فریق بننے کیلئے آگئے۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ اصل درخواست گزار کون تھا؟ عدالت کو بتایا گیا کہ پہلی درخواست احمد نواز نے دائر کی تھی۔ عدالت نے کہا کہ دوسرے راؤنڈ میں کس نے درخواست دائر کی تھی جس پر ریلیف دیا گیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر نے درخواست کا آخری پیرا گراف پڑھ کر سنایا جس میں نجم سیٹھی کو فارغ کئے جانے کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ذکاء اشرف اس میں فریق نہیں ہیں۔

امتیاز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ذکاء اشرف اور بورڈ ممبران کو فارغ کیا گیا تھا۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ ارباب ہمارے ہاں پہلے درخواست گزار ہیں جن کا لوکس سٹینڈ آئی کو نہیں جانتے۔ امتیاز ایڈووکیٹ نے کہا کہ دو بورڈ ممبران سپریم کورٹ آئے تھے اور اگر بورڈ ممبران بحال ہوئے تو چیئرمین کے طور پر ذکاء اشرف کو بھی بحال کرنا ہوگا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ بادی النظر میں معاملہ مثبت حل کی طرف جارہا ہے اور اٹارنی جنرل نے جس بات کا وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا ہے اور اب نئی باڈی الیکشن کے بعد چارج سنبھالے گی۔

امتیاز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ذکاء اشرف لندن میں ہیں ان کی بیٹی کی صحت بہتر نہیں ہے ان سے طویل مشاورت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالت محسوس کرتی ہے اور ان کو بحال کرتی ہے تو وہ پی سی بی کو چھوڑنے کو تیار ہیں اگر نجم سیٹھی چارج سنبھالتے ہیں تو پھر وہ ضرور مداخلت کریں گے۔ وقار یونس اور سلیم ملک کے ملک قیوم کے فیصلے کے مطابق ان کی تعیناتی مناسب نہیں ہوگی۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اب چیف الیکشن کمشنر آچکے ہیں اور وہ بورڈ کے سربراہ بھی ہیں اب اس کا حل بھی بہتر طور پر نکل آیا ہے۔ میرا تاثر یہ تھا کہ ان کو اس سے مخالف نہیں ہونی چاہئے۔ پہلے نوٹیفکیشن دیکھ لیتے ہیں۔ امتیاز نے کہا کہ نجم سیٹھی اور اقبال خان کو گورننگ باڈی کا ممبر مقرر کردیا ہے وہ اس ایشو کے تحت کیسے شامل ہوسکتے ہیں۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ہم نے تمام بورڈ ہی ختم کردیا تو ممبران بھی ہم مقرر کریں گے۔

اگر آپ اس معاملے میں متاثر ہیں تو آپ متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔ امتیاز نے کہا کہ جب ذکاء اشرف نے کہا کہ وہ جب زرعی بینک کے صدر تھے تو انہوں نے پانچ کروڑ روپے کی تنخواہ تک چیئرمین کرکٹ بورڈ کیلئے چھوڑ دی تھی۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ وہ اچھے انسان ہیں ان کی قدر کرتے ہیں۔ امتیاز نے کہا کہ ذکاء اشرف نے ملازمین کا تقرر نہیں تھا وہ تو پی سی بی کے ہی ملازمین تھے۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ اب ریٹائر جج مقرر ہوچکے ہیں میں تو کرامت نذیر بھنڈاری کا سن رہا تھا اور وہ فرسٹ کلاس کرکٹر تھے ان کو مقرر کیا جارہا ہے۔ ذکاء اشرف اگر بحال ہوکر استعفیٰ دیتے ہیں تو ہم ان کو بحال کرنے کو تیار ہیں آپ کو ان کی جانب سے بیان دینا پڑے گا۔ امتیاز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نجم سیٹھی دوبارہ سے کیسے بورڈ کا حصہ بن سکتے ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میں نے بات کی تھی ذکاء اشرف نے یہ الفاظ نہیں کہے تھے میں اجلاس میں موجود تھی۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ کی بات سے بات بڑھ جائے گی۔ عاصمہ نے کہاکہ میں وزارت کی جانب سے پیش ہورہی ہوں بات سنبھال لوں گی۔ آئی سی اے میں ہم واضح تھے نظام کی بہتری چاہتے تھے۔ ہم نے کہا تھا کہ ذکاء اشرف اور عدالت کو نئی تجویز دیتے ہیں ان کو قبول کیا جائے گا۔ کرکٹ صرف کھیل نہیں ہے یہ بین الاقوامی سیاست بھی ہے ہم چاہتے تھے کہ بھارت اور افغانستان کی وجہ سے خارجہ پالیسی بنانا تھی۔

نئے قانون کے تحت ایسا بندہ لانا چاہتے تھے کہ جو ان سے بات کرسکتے۔ ہمارے معاملات انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے ہے۔ اگر دو چیئرمین ہوں گے تو معاملات خراب ہوں گے‘ اگر بحال کردئیے گئے تو معاملات بہتر نہیں ہوں گے۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ وہ خود بھی باعزت طور پر جانا چاہتے ہیں۔ صورتحال یہ بن رہی ہے۔ آئین بن گیا عبوری سیٹ اپ بنادیا گیا۔ ریٹائرڈ جج کو چیئرمین اور چیف کمشنر بنایا گیا ہے جو انتخابات سے ہوکر آئے گا وہ مستقل چیئرمین ہوگا جن کو فارغ کیا گیا تھا ان ملازمین کا فیصلہ عبوری سیٹ اپ کردے گا۔

ہم چاہتے ہیں کہ ان کا مسئلہ بھی حل ہو جائے نیا سیٹ اپ بھی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے ۔ان معاملات پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔عاصمہ نے کہا کہ یہ چاہتے تھے کہ نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ نے نوٹس سے بچنے کے لئے ذکاء اشرف کو فارغ کیا۔ ان ملازمین کو بھی فورم ملنا چاہیے۔ صدر ،وزیر اعصم کے دو نامزد ممبران نجم سیٹھی اور اقبال کئے گئے ہیں اس حوالے سے وزیر اعظم سے بات کرلیں اب معاملہ پیٹرن ان چیف وزیر اعظم اور عدالت کے درمیان ہے ۔

ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں پر اعتراض ہے ان کو شامل نہ کیا جائے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آپ بہت مہربان ہیں آپ ذکاء اشرف کی عظمت کو بحال کرنا چاہتے ہیں کیا نجم سیٹھی کی کوئی عزت نہیں ہے۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ ہم ذکاء اشرف کی طرح نجم سیٹھی کو عزت دیں گے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ذکاء اشرف نے احترام نہیں دکھایا ۔خواہ مخواہ میں ایک شخص کے ذریعے درخواست دلوادی ۔

یہ تاثر غلط ہے کہ ذکاء اشرف آئینی چیئرمین بورڈ ہیں ۔میں ثابت کرسکتی ہوں کہ وہ نہیں ہیں ۔

جسٹس انورظہیر نے کہا کہ امتیاز خود کہہ رہے ہیں وہ ریٹائر ہونے کو تیار ہیں ۔نجم سیٹھی سے کہہ دیں کہ وہ خود کر دیں کہ وہ بورڈ مینجمنٹ کا حصہ نہیں بنیں گے ۔جسٹس ثاقبت نے کہا کہ آپ نجم سیٹھی کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں ۔پیٹرن ان چیف کی طرف سے تو اٹارنی جنرل پاکستان پیش ہو رہے ہیں ۔

آپ نہیں۔جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ پیٹرن انچیف سے پوچھ لیں کہ نجم سیٹھی کے حوالے سے فیصلہ کریں ۔کسی اور کو مقرر کر دیں۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ خدارا سابق ججز کوئی تو جگہ چھوڑ بھی دیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کراچی میں ہیں اور خصوصی اجلاس کے لئے گئے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پی سی بی کے معاملات عدالتی قسم کے تحت عبوری طور پر چل رہے ہیں ان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے،آپ فیصلے کو متاثر نہیں کر سکتے۔

ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عدالتی فیصلے کے اثرات ختم نہیں کر سکتے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ذکاء اشرف کا یہ حق ہے کہ وہ جس کو چاہیں مقرر کر دیں۔کیا اس کے لئے دروازے کھول دیئے جائیں ۔ذکاء اشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ ملک قیوم پی سی بی کی طرف سے وکیل پیش نہیں ہو سکے ۔انہوں نے خود ان لوگوں کو سزا دے رکھی ہے جو آج بورڈ کا کسی نہ کسی طریقے سے حصہ ہیں۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ حکومتی نوٹیفکیشن پر دیگر فریقین کو سننا پڑے گا۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ ہم نے جو آرڈر معطل کیا تھا اس پر جائزہ لے سکتے ہیں۔ ممکن ہے نجم سیٹھی خود ہی اپنے آپ کو اس معاملے سے الگ کریں۔ایک بجے کے بعد عدالت میں اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور بتایا کہ وزیر اعظم خصوصی اجلاس میں ہیں ۔و کل صبح9 بجے تک ہدایات حاصل کرلیں گے ۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اس معاملے کو اگلے ہفتے کسی دن رکھ لیں۔اس پر عدالت نے کہا کہ یہ بنچ نہیں ہوگا۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ کچھ غیر ملکی ملنے آرہے ہیں ۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ ہم مسئلے کے حل کے بہت قریب ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ادارے موجود رہیں اور ایڈہاک ازم ختم ہو جائے ۔ذکاء اشرف مستعفی ہونے کا کہہ چکے ہیں اگر کوئی فنانشل گھپلے ہوتے ہیں تو آپ ان کے خلاف متعلقہ فورم پر رجوع کر سکتے ہیں ۔

نئے سیٹ اپ میں دس بورڈ ممبران میں سے نجم سیٹھی ایک ہیں وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو چیئرمین بن سکتے ہیں ۔صرف بورڈ ممبر ہی اس میں حصہ لے سکتا ہے۔عاصمہ نے کہا کہ ان لمحات میں ذکاء اشرف کارروائی کا حصہ نہیں ہیں ۔دو اصول اور قانون پہلو زیر سماعت ہیں ہم ریکارڈ پر کچھ نہیں لانا چاہتے ۔پیٹرن انچیف نے فیصلہ کیا،سپریم کورٹ کوئی فیصلہ کرتی ہے تو نجم سیٹھی کی عزت پر داغ لگے گا۔

نجم سیٹھی کو نوٹس دے دیں۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ ایگزیکٹو آرڈر یا نوٹیفکیشن کے تحت عدالتی فیصلہ کو ختم نہیں کر سکتے ہم اپنا فیصلہ واپس لے لیتے ہیں تو ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال ہو جائے گا۔ کیا عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہونے کے دوران اس طرح کا نوٹیفکیشن حکومت جاری کر سکتی ہے۔ اس میں لمبی بحث ہے ۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پیٹرن انچیف کو دو بورڈ ممبران کو نامزد کرنے کا اختیار ہے اگر یہ اختیار ان کی بجائے آپ کو دے دیا جائے تو پھر کیا ہوگا؟ جسٹس ثاقب نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے حوالے سے بات کررہے ہیں ۔

ہماری معطلی آرڈر پر آپ کام کررہے ہیں پھر کیوں نا ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جائے۔ جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ اگر نجم سیٹھی کی طرف سے آپ پیش نہیں ہورہی ہیں تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ان کا نام نکال دیا جاتا ہے تو آپ کو کیا فرق پڑے گا۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ نجم سیٹھی کی عزت پر حرف نہیں آئے گا ۔آپ بتائیں کہ قانونی طور پر کس طرح یہ نوٹیفکیشن جاری کیا جا سکتا ہے۔

عاصمہ نے کہا کہ حکومت ایسا کر سکتی ہے ۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ ہائی کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے صرف ایشو یہ ہے کہ نجم سیٹھی عبوری سیٹ اپ کا حصہ بن سکتے ہیں جس سے چیئرمین بنتا ہے ۔اگر ہم نجم سیٹھی کو بطور ممبر تسلیم نہ کریں تو پھر کیا ہوگا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ صبح تک کا وقت دے دیں ان کو چیئرمین کے طور پر عہدے سے الگ کر دیا گیا ہے ۔عدالت نے کہا کہ ہم صبح9 بجے ہی اس کی سماعت کریں گے۔