سویڈن اسانج کا مقدمہ جلد نمٹائے، ایکواڈور کا مطالبہ

جمعہ 18 جولائی 2014 07:52

کوئیٹو(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18جولائی۔2014ء)ایکواڈور نے سویڈن پر زور دیا ہے کہ وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کے خلاف مقدمہ جلد نمٹایا جائے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سویڈن کی ایک عدالت نے اسانج کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست ردّ کر دی ہے۔ ایکوڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پٹینو نے اپنی حکومت کا یہ موٴقف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں ظاہر کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی حکومت کی جانب سے اسانج کو تحفظ فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس بیان میں انہوں نے کہا: ”دو برس، یہ بہت ہی طویل عرصہ ہے: اب جولیان اسانج کے مقدمے کو کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے اور ان کے انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔

(جاری ہے)

“پٹینو نے مزید کہا: ”ایکواڈور انصاف کے معاملے میں سویڈن سے تعاون کرنا چاہتا ہے: لندن میں سفارت خانے میں یا ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے تفتیش کی جائے، اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

بدھ کو ہی سویڈن کی ایک عدالت نے جولیان اسانج کے خلاف جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے سے متعلق ان کے وکلاء کی ایک درخواست مسترد کر دی۔یہ فیصلہ اسٹاک ہولم ڈسٹرکٹ کورٹ نے سنایا ہے۔ وکلائے استغاثہ نے مطالبہ کیا تھا کہ 2010ء کے اواخر میں جاری کیے گئے گرفتاری کے وارنٹ برقرار رکھے جائیں تاکہ اسانج کو سویڈن لایا جا سکے۔وکلائے استغاثہ نے اسانج کی یہ تجویز مسترد کر دی کہ ان سے لندن میں پوچھ گچھ کر لی جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں متعدد لوگوں سے بارہا پوچھ گچھ کی ضرورت ہو گی اور ان لوگوں میں ممکنہ طور پر اسانج بھی شامل ہوں گے۔اس کے برعکس وکلائے صفائی کا کہنا تھا کہ تفتیش غیرضروری طول پکڑتی جا رہی ہے۔ انہوں نے بدھ کے نئے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔آسٹریلوی کمپیوٹر ایکسپرٹ اسانج دراصل اپنی ویب سائٹ پر امریکا کے ہزاروں خفیہ سفارتی پیغامات جاری کرتے ہوئے واشنگٹن حکومت کو ناراض کر چکے ہیں۔

وہ سویڈن کو مطلوب ہیں، جہاں وکی لیکس کی دو رضاکار خواتین نے ان پر جنسی طورپر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔اسانج ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک عدالت نے دو برس قبل انہیں سویڈن کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد سے وہ لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔اس سے قبل 2010ء میں انہیں برطانیہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اسی سال دسمبر میں وہ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد اپنے ایک دوست کے ہاں قیام پذیر رہے۔