بھارت ،اپوزیشن کا بی جے پی کے خلاف متحد ہونے فیصلہ، 22 دسمبر کو سب جماعتیں دہلی میں مظاہرہ کریں گی،وزیر اعلی بہار نتیش کمار

جمعہ 5 دسمبر 2014 04:59

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5دسمبر۔2014ء)بھارت میں حزب اختلاف کی ان جماعتوں نے جو کبھی جنتا پارٹی یا ’جنتا پریوار‘ کا حصہ ہوا کرتی تھیں، حکمراں بی جے پی کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ابھی ان مختلف علاقائی جماعتوں کے باقاعدہ انضمام کا اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن ایک پارٹی بنانے کی تجویز پر بنیادی اتفاق ہو گیا ہے اور اس تجویز کو عملی شکل دینے کی ذمہ داری سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے سپرد کی گئی ہے۔

یہ اعلان جمعرات کو دہلی میں ایک اجلاس کے بعد کیا گیا جس میں سماج وادی پارٹی کے علاوہ بہار سے لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل اور نتیش کمار کی جنتا دل یونائٹڈ، ہریانہ کی انڈین نیشنل لوک دل اور کرناٹک سے سابق وزیر اعظم ویوے گوڑا کی جنتا دل سیکیولر کے سرکردہ رہنما شامل تھے۔

(جاری ہے)

اجلاس کے بعد بہار کے سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 22 دسمبر کو یہ سب جماعتیں دہلی میں ایک مظاہرہ کریں گی جس کا مقصد نریندر مودی کی حکومت کے ان وعدوں پر توجہ مبذول کرنا ہو گا جو انتخابی مہم کے دوران کیے گئے تھے لیکن جن سے حکومت اب پیچھے ہٹ گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اتحاد کی ابتدا بہار میں پہلے سے ہی کی جا چکی ہے جہاں جنتا دل یونائٹڈ اور راشٹریہ جنتا دل نے مل کر ضمنی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور بی جے پی کو روکنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔اتحاد کا فیصلہ سیاسی اعتبار سے کافی اہم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ جماعتیں اب بائیں بازو کی پارٹیوں، کانگریس اور ترنمول کانگریس جیسی ’ہم خیال‘ پارٹیوں سے بھی تعاون کرنے کی کوشش کریں گی جو بی جے کی مخالفت میں خود کو کمزور یا اکیلا محسوس کر رہی ہیں۔

آج متحد ہونے کا اعلان کرنے والے زیادہ تر رہنما سوشلسٹ نظریات کے حامل ہیں اور انھوں نے 1970 کی دہائی میں سماج وادی لیڈر جے پرکاش نارائن کی قیادت میں اپنی سیاسی زندگیوں کا آغاز کیا تھا۔لیکن 1991 میں وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت گرنے کے بعد جنتا دل کا انتشار شروع ہوگیا تھا، اور وہ الگ الگ راستوں پر چل پڑے تھے۔اتحاد کا فیصلہ سیاسی اعتبار سے خاصا اہم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ جماعتیں اب بائیں بازو کی پارٹیوں، کانگریس اور ترنمول کانگریس جیسی ’ہم خیال‘ پارٹیوں سے بھی تعاون کرنے کی کوشش کریں گی جو بی جے کی مخالفت میں خود کو کمزور یا اکیلا محسوس کر رہی ہیں۔

یہ سبھی پارٹیاں پہلے بھی ایک ساتھ کام کر چکی ہیں۔حزب اختلاف کو اتحاد کی ضرورت پارلیمانی انتخابات کے فوراً بعد ہی محسوس ہونا شروع ہوگئی تھی جب اتر پردیش، بہار اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے ان کا تقریباً صفایا کر دیا تھا۔

متعلقہ عنوان :