غیر ملکی قرضے لینا ہماری مجبوری ہے ، اقتدار میں آنے کے بعد 32 اداروں کے سیکرٹ فنڈز بند کردیئے، ملک کو معاشی طورپر مضبوط بنانے کیلئے تمام سیاسی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں،وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، بعض دانشور میڈیا پر بیٹھ کر ملک کیخلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں ،وزیر اعظم کے فوری بلانے پر نا آسکا،معذرت خواہ ہوں،سینیٹ میں شیریں رحمن کی غیر ملکی قرضوں میں مزید اضافے سے متعلق تحریک التواء پر بحث ،اسحاق ڈار کی کویتی کمپنی کے خلاف کیس کے کامیاب دفاع پر ایف بی آر حکام کی کارکردگی کی تعریف ، کامیاب دفاع نے کویتی کمپنی اجیلٹی کو چھ سو پچاس ملین ڈالر کا کیس واپس لینے پر مجبور کردیا

ہفتہ 14 نومبر 2015 08:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآ ن لائن۔14نومبر۔2015ء) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ غیر ملکی قرضے لینا ہماری مجبوری ہے ، اقتدار میں آنے کے بعد 32 اداروں کے سیکرٹ فنڈز بند کردیئے ہیں ملک کو معاشی طورپر مضبوط بنانے کیلئے تمام سیاسی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں بعض دانشور میڈیا پر بیٹھ کر ملک کیخلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان بالا میں سینیٹر شیریں رحمن کی جانب سے غیر ملکی قرضوں میں مزید اضافے سے متعلق تحریک التواء پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا ۔

اس موقع پر سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ حکومت غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بنا رہی ہے اور یہ بوجھ آنے والی حکومت کے سر پر ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ اخبارات نے بھی پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں اضافے سے متعلق خبریں دی ہیں انہوں نے کہا کہ ڈھائی سالوں کے دوران تین کھرب روپے کے قرضے لئے گئے ہیں اور سالانہ ایک کھرب روپے سے زائد مقامی قرضوں کی مد میں دیئے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت بیرونی ممالک سے مہنگے قرضے لیکر پاکستان میں لئے جانے والے سستے قرضوں کی ادائیگی میں صرف کرتی ہے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کا پاکستان کوکوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہاہے انہوں نے کہا کہ ہر سال چھ ارب ڈالر کا قرضہ لیا جارہا ہے ہماری ستر فیصد جی ڈی پی قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے ملک کے ہر شہری کو لاکھوں روپے کا مقروض بنا دیا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت ٹیکس نیٹ میں اضافہ میں ناکام ہوچکی ہے مہنگے شرح سود یورو بانڈ بیچے گئے ہیں پرائیویٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری مزید کم ہورہی ہے ۔

(جاری ہے)

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ بجٹ خسارے کو ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے ذریعے پورا کیا جارہا ہے تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود صنعتی کارکردگی متاثر ہورہی ہے کارپوریٹ سیکٹر پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر قرضوں کے ذریعے بڑھائے جارہے ہیں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے ۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت ایوان کو مختلف مسائل میں الجھا کر پریشان کرنے کی کوشش کررہی ہے حکومت قرضے لیکر ملک چلانے پر انحصار کررہی ہے مہنگے قرضے لیکر سستے قرضے ادا کررہی ہے حکومت کے اخراجات بہت زیادہ شاہانہ ہوچکے ہیں ملک میں ٹیکس ادائیگی نہیں ہورہی ہے ۔

سینیٹرنعمان وزیر خٹک نے کہا کہ حکومت نے سب سے زیادہ مہنگے یورو بانڈز لیکر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے پاکستان سے غیر قانونی کرنسی سمگل کرنے والوں نے یورو بانڈ میں سرمایہ کاری کی ہے اس وقت پاکستان کے قرضے 67فیصد تک جا چکے ہیں انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر اٹر پرائزز پر چار سو ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں اور یہ رقم عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے انہوں نے کہا کہ جو لوگ ٹیکس ادا کررہے ہیں ان کا ہی گلا دبایا جارہا ہے ٹیکس ریفنڈ گزشتہ تین سالوں سے ادا نہیں کیا گیا ہے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ وزیر خزانہ تنقید برداشت نہیں کرسکتے ہیں اور ناراض ہوجاتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان نکل نہیں سکے گا قرضہ واپس کرنے کیلئے مزید قرضہ لینا پڑے گا ہم آئی ایم ایف کے ہاتھوں ٹریپ ہوچکے ہیں نجکاری ہمارے قرضے ختم نہیں ہورہے ہیں گزشتہ ڈھائی سالوں سے بیرونی قرضے لیکر اندرونی قرضے ادا کررہے ہیں جو کہ نہایت خطرناک ہے اور اس کے خطرناک نتائج مستقبل میں برآمد ہونگے سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ حکومت قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی بجائے دیگر اطراف میں دیکھ رہی ہے ملک میں قدرتی گیس اور کوئلے کے ذخائر دریافت کرنے اور انہیں برآمد کرنے کی بجائے ایل این جی اور بیرونی اشیاء پر انحصار کررہی ہے ۔

بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی مسائل پر مل بیٹھ کر بات کرنی چاہیے تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی معیشت کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا ملکی محصولات اور اخراجات میں بہت زیادہ فرق ہے ملک کو چلانے کیلئے بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کو مشکلات میں گھرا ملک قرار دیا ہے جب تک خسارے کو کم نہ کیا جائے اس وقت تک قرضہ بڑھتا رہے گا انہوں نے کہا کہ حکومت سنبھالنے کے بعد بتیس اداروں کے سیکرٹ فنڈ پر پابندی عائد کی قرضوں کو کم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں بعض عناصر منفی پاکستان کے بارے میں منفی افواہیں پھیلا رہے ہیں میڈیا میں بھی غلط خبریں چھاپی جارہی ہیں۔

تیس جون2013ء تک کل قرضہ 15996 ارب روپے تھا تیس جون 17 کھرب 31اگست 2015ء تک 18.083 کھرب سے قرضہ ہے ایک سال میں 2600ارب روپے قرضہ بڑھ رہا ہے انہوں نے کہا کہ ضرب عضب پر خرچ ہورہا ہے چار ملکوں کے پاس گئے مگر وعدے سے بہت کم رقم ملی ہے ضرب عضب کا خرچہ 1.9ارب ڈالر سے زیادہ ہے گزشتہ سال بجٹ میں 45 روپے نہیں مگر 45ارب روپے کی لاگت سے ضرب عضب شروع کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کا کوئی شوق نہیں ہے ہم ڈکٹیشن لینے کا شوق نہیں ہے ہماری مجبوری ہے انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر بزنس کرنے کیلئے ان اداروں کے ساتھ رابطہ ضروری ہے حکومت سنبھالنے سے پاکستان کی معیشت بہت خراب تھی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہونے کی وجہ سے عالمی ادارے پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھے مگر گزشتہ تین سالوں کے دوران حکومت نے دن رات کام کرکے ملکی معیشت کو سنبھالا دیا ہے انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کیلئے حکومت کا ساتھ دیں ۔

دریں اثناء ایوان بالا میں پیش کی گئی این ایف سی رپورٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہ اب تک ملک میں چار این ایف سی ایوارڈ ہوئے ہیں پہلا ایوارڈ 30 جون 1991 تک چلا ۔ دوسرا این ایف سی 1997 تک ، تیسرا ایوارڈ 2010 تک چلا ۔ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کو 82 فیصد حصہ جبکہ ریونیو جمع کرنے کو پانچ فیصد دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب نے اپنے حصہ سے دوسرے صوبوں کو شیئر دیا ۔

موجودہ این ایف سی ایوارڈ سے پنجاب کا 52 فیصد سندھ ، 24.55 خیبرپختونخوا ، 14.62 اور بلوچستان کا 9.9 فیصد ہے آئین کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر این ایف سی ایوارڈ میں شامل نہیں ہے اس وقت 57 فیصد صوبوں کو 43 فیصد وفاقی حکومت کے پاس ہے جس میں سے وفاقی حکومت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی حصہ دیتے ہیں ۔ صوبوں سے نام لے کر 24 اپریل 2015 کو میٹنگ بلوائی۔

ہم نے گنڈہ ٹیکس کو ختم کیا اس کے علاوہ صوبوں اور وفاق کے حصہ سے ایک فیصد خیبرپختونخوا کو دیا کیونکہ وہاں پر دہشت گردی کی وجہ سے حالات کافی خراب تھے ۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب کا ممبر نہ ہونے کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ کی میٹنگ نہیں بلوائی جا سکی ۔ حکومت نے ممبر منتخب کرنے کے لئے چار خط لکھے ہیں ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت مقرر کئے گئے ٹیکس جی ڈی پی حاصل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ۔

خیبرپختونخوا کو دو سال میں دہشت گردی کی مد میں 26 فیصد جا چکا ہے ۔ گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں پنجاب کو 10.933 ارب سندھ کو 10.67 ارب ، کے پی کے کو 2.04 اور اب جبکہ بلوچستان کو 2.23 ارب دیا گیا ہے ۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں پنجاب کو 0.213 ارب کو حصہ دیا گیا ہے ایوارڈ کو جلد از جلد انعقاد کروانا چاہتے ہیں ہم نے ٹیکس جمع کرنے کے متعلق ہر چیز شیئر کر دی ہے ۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ماضی میں 13 سال اور 16 سال میں ایوارڈ دیتے رہے ہیں تو اس ایوارڈ میں ابھی چند ماہ ہوئے ہم نے بے انکم سپورٹ پروگرام سے خاطر خواہ اضافہ کیا ہے ۔ 12 ہزار سے 18 ہزار کیا ہے معیشت کو سیاست سے الگ کیا جائے معیشت کی بحالی کے تمام جماعتوں کے اراکین سے بات کرتا رہتا ہوں ۔ادھروفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے کویتی کمپنی کے خلاف چھ سو پچاس ملین ڈالر کے کیس کا کامیاب دفاع کرنے پر ایف بی آر حکام کی کارکردگی کو سراہا ہے ۔

ایف بی آر کے کیس کے کامیاب دفاع نے کویتی کمپنی اجیلٹی کو کیس واپس لینے پر مجبور کردیا جبکہ سرمایہ کاری کے معاملات کو نمٹانے لندن کے ٹربیونل نے کیس کی فائنل تاریخ نومبر کے تیسرے ہفتے میں مقرر کررکھی ہے واضح رہے کہ اجیلٹی پرائیویٹ لمیٹڈ امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کے سوفٹ ویئر کو بڑھانے کے حوالے سے 2005ء سے ایف بی آر کے ساتھ قانونی معاملات میں لگا ہوتا ہے اس طرح ایف بی آر حکام نے ستمبر دو ہزار دس میں مذکورہ کمپنی کے ساتھ کنٹریکٹ منسوخ کردیا اس پرکمپنی نے انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹ نے حکومت پاکستان کیخلاف چھ سو پچاس ملین ڈالر کا کلیم فائل کرلیا ابتدائی طور پر کیس دو ہزار بارہ میں آئی سی ایس آئی ڈی سنگاپور کیحدود میں سنا گیا گزشتہ حکومت کے کیس کو تعاقب نہ کرنے پر پاکستانی حدود کا مقدمہ ہار گیا تاہم اگست دو ہزار تیرہ میں لندن میں ازسرنو کیس اٹھانے کے لئے مذکورہ کمپنی کو کیس واپس لینے پر مجبور کردیا کیس کی تاریخ لندن میں نومبر کے تیسرے ہفتہ میں مقرر کی گئی مگر تاریخ سے قبل ایف بی آر کی لیگل ٹیم کی جانب سے بھرپور دفاع کے بعد کمپنی نے بغیر کسی شرط کے حکم واپس لے لیا ہے اس پر وزیر خزانہ نے ایف بی آر حکام کی کارکردگی کو سراہا